زبان،وسیلہ ہدایت یا وسیلہ گمراہی



”یہ تعجب آور بات ہے کہ امام علیہ السلام کا مقصود یہ ہے کہ عقلمند شخص، اپنی زبان کو کھلی ڈھیل نہیں دےتا بلکہ اپنے دل میں غور و خوض کرنے کے بعد اظہارکرتا ہے․ اس کے مقابلہ میں بیوقوف کی زبان پرجو آتاہے اسے بولتاہے اور غور وفکر کرنے سے پہلے بات کہنے کو ترجیح دیتا ہے۔پس گویا عقلمند کی زبان اس کے دل کے تابع ہے اور بیوقوف کا دل اس کی زبان کے تابع ہے“

پس ہمیں بات کرتے وقت غور و خوض کرنا چاہئے کہ ہم کس لئے بات کرنا چاہتے ہیں اور ہماری غرض کیا ہے تا کہ خدا کی عنایت سے زبان کی آفتوں اور نفسانی خواہشات اور شیطانی حیلوں سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ لیکن اگر ہم غور و فکر نہ کریں اور اپنی کام میں ضروری دقت نہ کریں اور تامل کئے بغیر بے حساب بات کریں، تو ہم آہستہ آہستہ شیطان کے پھندے میں پھنس جائیں گے اور غیر شعوری طور پر اس کے مکرو فریب میں گرفتار ہوں گے۔ البتہ یہ لغزشیں اور یہ انحرافات جو غفلت ، جلد بازی،امور کی انجام دہی میں غور و فکر نہ کرنے اور صحیح محرک (مقاصد) کے نہ ہونے کی وجہ سے ہیںاور یہ چیز صرف بات کرنے اور گفتگوکی حدتک محدود نہیں ہے ، بلکہ انسان اپنے بدن کے دوسرے تمام اعضا اور توانائیوں سے استفادہ کرنے میں بھی اپنی لغزشوں اور انحرافات سے دوچار ہوتاہے۔البتہ اس وقت ہماری بحث کاموضوع ان آفتوں کے بارے میں ہے جو انسان کو زبان کی وجہ سے پیش آتی ہےں اور دوسرے خطرات کی نسبت بیشتر نقصان پہنچانے والی ہے۔ہمیں بات کرتے وقت خدا کی مرضی اور اس کی خوشنودی کو حاصل کرنے کی فکر میں ہونا چاہئے نہ یہ کہ اپنی نیت اور ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی فکر میں رہیں۔

پہلے مرحلہ میں ہماری گفتگو خدا کے نزدیک پسندیدہ او رمطلوب ہونی چاہئے اور دوسرے درجہ میں اس بات کے کہنے میں ہمارے ا غراض او رمقاصد صحیح ہونے چاہئے، یعنی فعل بھی نیک ہوناچاہئے اور فاعل

----------------------------------------

۱۔ نہج البلاغہ (ترجمہ شہیدی، کلمات قصار/ ۴۰، ص/ ۳۶۷

بھی ۔ بات کا قالب بھی صحیح ہو اور اس بات کا ہدف اور مقصد بھی ، بات کی صورت بھی صحیح ہو اور اس کا مفہوم و معنی بھی ۔

حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اور دوسرے بزرگ بارہا فرمایا کرتے تھے: شیطان ہرگز عالم کو شراب نوشی او رزشت اعمال جو اس کی شایان شان نہیں ہے انجام دینے پر مجبور نہیں کرتا کیونکہ اس صورت میں عالم کے لئے آبروباقی نہیں رہے گی اور وہ ہرگز ایسا خطرہ اور نقصان اٹھا نے کے لئے آمادہ نہیں ہوگا۔لیکن شیطان علما اور اہل علم کو ایسی لغزشوں اور انحرافات سے دوچار کرتاہے کہ جو حقیقت میں شراب نوشی سے بھی بدتر ہیں۔وہ عالم کو ایسا کام انجام دینے پر مجبور کرتاہے کہ ظاہر مےں وہ کام برانہیں لگتا ہے او رکوئی اسے مذمت نہیں کرتاہے کہ تم نے کیوں ایسا کیا،لیکن اس کام کا ضرر اور گناہ بہت ہوتاہے اور ممکن ہے خود انسان بھی متوجہ نہ ہوکہ وہ کیسے اتنے بڑے گناہ کا مرتکب ہوگیا اور کس قدر اپنی حیثیت سے گرگیاہے! اس لئے بہتر ہے ہم مزید غور فکر سے کام لیں اور اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی کوشش کریں اور اپنی زبان کو لگام دیں، تاکہ ہر بات کو زبان پرجاری نہ کریں اورسوچ سمجھ کر گفتگوکریں ۔جب تک بات کرنے کہ ضرورت نہ ہو زبان نہ کھولیں، چنانچہ سعدی کہتاہے:

ندہد مرد ہوشمند جواب

مگرآنگہ کزاو سوال کنند

”عقلمند تب تک بات نہیں کرتا جب تک اس سے سوال نہ کیا جائے“



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next