زبان،وسیلہ ہدایت یا وسیلہ گمراہی



بولنے اور دیگر رفتار کے ر دعمل اور نتائج پر ایک نظر:

ہمیں توجہ رکھناچاہئے کہ جب ہم گفتگو کرنے میں محو ہوتے ہیں،تو پھر زبان پر قابوپانامشکل ہے، اس لئے زبان کھولنے سے پہلے جو ہم کہناچاہتے ہیں اس کے بارے میں غور کر لیں تا کہ حد سے تجاوز نہ کرےں۔ہم اگر اپنی زبان پر قابونہیں رکھتے تو جب ایک مجلس میں ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی ہیں، لوگ دوسروں کی باتیں سن کر ہنستے ہیں اور بات کرنے والے کی ہمت افزائی کرتے ہیں، تو انسان کے لئے ایسے ماحول میں خاموش بیٹھنامشکل ہے۔لہٰذا باتوں باتوں میں انسان مذاق و مسخرہ کرنے پراترتاہے اورہر طریقہ سے، حتی غیبت کے ذریعہ دوسروں کو ہنسانے کی کوشش کرتاہے۔حقیقت میں ایسی حالت میں زبان کنٹرول میں نہیں رہتی ہے بلکہ سرکش گھوڑے کے مانند ہے ، کہ جو لگام توڑ کر بھاگ جاتاہے تو اسے پھر سے قابومےں لانادشوارہوتاہے۔لہذاانسان کو ابتدا سے ہی اپنی زبان کو کنٹرول مےں رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جو بھی مطالب یا گفتگو پیش کرنا چاہے پہلے اس کے بارے میں فکر کرے کہ وہ بات مناسب وسزاوار ہے یا نہیں اس کے علاوہ گفتگو میں حد سے تجاوز کرنے اور افراط سے بھی پرہیز کرے۔

انبیا ء اور اولیائے الہی انسانوں کی تربیت کی غرض سے انھےں یاددہانی کراتے تھے کہ ان کے کام کا ایک حساب و کتاب ہے،ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی گفتار و کردار میں جوابدہ نہیں ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ ایک گھنٹہ گفتگو کرنے کے بعد ہم فکر کریںکہ کہیں کوئی اتفاق تو پیش نہیں آیا! بلکہ ہرکلمہ جوانسان کے منہ سے نکلتاہے وہ ثبت ہوتا ہے اور اس کے بارے میں اس سے سوال ہوتا ہے کہ تم نے کیوں ایسا کہا اور کیوں فلاں نیت سے کہا۔اس مطلب کو مدنظر رکھناانسان کے لئے سبب بنتاہے کہ انسان کسی حد تک اپنی آپ کو کنٹرول کرے و رنہ انسان کانفس قوی ہے اور آسانی کے ساتھ قابومیں نہیں آتاہے۔

مومن کے نفس کو کنٹرول کرنے کی من جملہ راہوں میں سے ایک راہ یہ بھی ہے کہ وہ اس امر کی طرف متوجہ رہے کہ خدائے متعال حاضر وناظر ہے اور وہ اس کی باتوں کو سنتاہے اور قیامت کے دن اس کے بارے میں سوال کرے گا، اس نکتہ کوپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اپنے کلامِ مبارک میں یوں بیان فرمایا ہے:

”یا اباذر؛ ان اللّٰہ عزّو جلّ عند لسان کلِّ قائلٍ فلیتّقِّ اللّٰہ امرء و لیعلم ما یقول“

”اے ابوذر! خدائے متعال ہر بولنے والے کی زبان کے پاس ہے، پس بات کرنے والے کو خدا سے ڈرناچاہئے اوروہ جان لے کہ کیا کہتا ہے“

اگر انسان اس حقیقت کو مد نظر رکھے کہ اس کی گفتگو کے دوران خدائے متعال حاضر و ناظر ہے اور اس کی کوئی بات خدا سے پوشیدہ نہیں ہے، تو وہ احتیاط سے کام لے گا ہر با ت کو زبان پرجاری نہےں کرے گا۔اس کے علاوہ تقوائے الہی اس امر کا سبب بن جاتاہے کہ انسان خدائے متعال سے ڈرے، نتیجہ کے طور پر اپنی رفتار کو کنٹرول کرتا ہے اور اس کی اجازت نہیں دیتا کہ سوچے سمجھے بغیر کوئی بات اس کی زبان پر جاری ہوجائے۔

اس طرح اولیائے الہی کی تربیت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے پیرو کار افراد کو نفسانی خواہشات پر کنٹرول کی تاکید کرتے ہوئے انھیں فضول اور بے جا باتوں سے پرہیز کرنے کی تشویق کرتے ہیں اور احتیاج اور ضرورت کے مطابق بات کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ زبان پر کم کلمات جاری کریں۔اگر دوجملوں سے کسی کو کوئی مطلب سمجھاسکتے ہیں تو تیسرا جملہ کہنے سے پرہیز کریں ۔یہاں تک اگر کسی واجب حکم ، جیسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں بات کرناچاہتے ہیں تو کوشش کریں کہ اپنے مقصود کی حدمیں بات کریں اور اضافی بات کرنے سے پرہیز کریں۔اس سلسلہ میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

”یا اباذر؛ اترک فضول الکلام وحسبک من الکلام ماتبلغ بہ حاجتک“

”اے ابوذر!زیادہ بات کرنے سے پرہیز کرو، اتنی ہی بات کروجس سے تمھاری حاجت پوری ہو جائے“



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next