زبان،وسیلہ ہدایت یا وسیلہ گمراہی



اوحدی شاعرنے خاموشی کی توصیف میں یہ شعر کہے ہیں:

غنچہ کو درکشد زبان دوسہ روز

ہم بزاید گلی جھان افروز

گر چہ پرسند کم جواب دھد

بہ نفس بوی مشک ناب دھد

راہ مردان بہ خود فروشی نیست

در جھان بہتر از خموشی نیست

(غنچہ دوتین دن کے لئے اپنی زبان بند رکھتاہے تا کہ عالم کو منور کرنے والے پھول اور خوشبوکو کو جنم دے جب اس سے پوچھتے ہیں توکم جواب دیتا ہے بلکہ نفس کو خاص مشک کی خوشبو دیتا ہے خودفروشی مردوں کا شیوہہے دنیامیں خاموشی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے)

زبان کو جھوٹ ، تہمت اور غیبت و غیرہ جیسی آفتوں سے محفوظ رکھنا چاہئے اور نیک اورشائستہ گفتگو کرنی چاہئے تا کہمخاطب یا کسی دوسرے کوکوئی اذیت نہ پہنچے ۔پس ایسے موقع پر گفتگو کرنی چاہئے جہاں اس کی ضرورت ہواور اس سے کوئی مقصد نکلے، ممکن ہے کبھی انسان ایسی بات کہے جس کے نتیجہ میں اس کے لئے بہشت میں ایک محل تعمیر کیا جائے۔پس جو اپنی بات سے خزانے حاصل کرسکتا ہے اگر اس کے بجائے خس وخاشاک حاصل کر ے تو اس نے بہت بڑا نقصان کیا ہے۔ یہ مثال اس کے لئے ہے جوذکر الہی تر ک کرکے مباح کا موں میں لگ جائے جس کا اس کے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر چہ اس نے گناہ نہیں کیا ہے ، لیکن اس لحاظ سے کہ اس نے ایک بڑ ے فائدے کو ----- جو ذکر خدا کے ذریعہ اسے حاصل ہورہا تھا ----- کھو دیا ہے اس لئے وہ خسارے میں ہے چنانچہ اما م جعفر صادق علیہ ا لسلام اولیائے الہی کی توصیف میں فرماتے ہیں:

”انَّ اولیاء اللّٰہ سکتوا فکان سکوتہم ذکراً و نظروا فکان نظرہم عبرةً ونطقوا فکان نطقہم حکمةً و مشوا فکان مشیہم بین الناس برکة“ ۱



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next