زبان،وسیلہ ہدایت یا وسیلہ گمراہی



منزلت کا مظہر ہے۔ پس اگر انسان نے اپنی بات کے نتائج کے بارے میں سوچے سمجھے بغیر بات کی تو اس نے اپنی بے مایہ ماہیت کو فاش کردیا، چنانچہ حضرت امام علی ﷼ فرماتے ہیں:

”تکلّموا تعرفوا فانّ المرء مخبوء تحت لسانہ“ ۱

”بات کرو تا کہ پہچانے جاؤ،بیشک انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے․“

دوسری جگہ پر بیہودہ بات کرنے اور اس کے نتیجہ کے بار میں فکر نہ کرنے کو منافقوں کے صفات جانتے ہوئے فرماتے ہیں:

”و انّ المنافق یتکلّم بما علی لسانہ لایدری ماذالہ و ما ذا علیہ “ ۲

”منافق کی زبان پر جو آتا ہے اسے بولتا ہے اور وہ نہیں جانتا ہے کہ اس کے نفع میںکیا ہے اور نقصان میں کیا ہے۔--“

اس کے برعکس مومن:

”اذا اراد ان یتکلم بکلام تدبرہ فی نفسہ، فان کان خیراً ابداہ وان کان شرّاً واراہ “ ۳

”جب چاہتا ہے کوئی بات بولے اس کے بارے میں صحیح طور پر غور و فکر کرتا ہے، اگر اچھی ہے تو اسے اظہار کرتاہے اور اگر بری ہے تو اسے چھپاتاہے․“

اگر چہ ہم اجمالا ًجانتے ہیں کہ زبان کے وسیلہ سے خدا ئے متعال کے تقرب کی کوشش کرنی چاہئے ، لیکن بات اس تقرب کی کیفیت میں ہے اس کی وضاحت میں یہ کہنابہتر ہے: ہماری بات اور گفتگو کبھی عبادت کے زمرے میں ہے، کہ انسان نماز اور عبادت کے دوران کچھ کلمات زبان پر جاری کرتاہے، ہمارایہ بولنا واجب اور مستحب عبادتوں میں شمار ہوتاہے۔ لیکن دوسرے مواقع پر ، زبان ایک وسیلہ ہے اپنے مافی الضمیرکو سمجھانے کے لئے اس کے ذریعہ سے انسان اپنی نیت اور ارادے سے دوسروں کو آگاہ کرتا ہے ،اس سلسلہ میں بھی انسان کو الٰہی مقصد ملحوظ رکھنا چاہئے کہ کونسی بات خداکو پسند او راس کا تقرب حاصل کرنے کا



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next