زبان،وسیلہ ہدایت یا وسیلہ گمراہی



۱۔ المیزان (دار الکتب الاسلامیہ ، طبع سوم )ج/ ۵، ص/ ۱۸

پر اطمینان کرے اور کہے کہ فلاںکی بات میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں پایا جاتاہے اور جو کچھ وہ کہتا ہے وہ ۔ صحیح ہے اور وہ سوچے سمجھے بغیر بات نہیں کرتا ہے۔

انسان کو صحیح اور سوچ سمجھ کربات کرنی چاہئے تا کہ لوگ اس پر اعتماد کریں اور وہ لوگوں کے اعتماد کے سائے میں معاشرے میں بلند مقام حاصل کرے۔اگر کوئی معاشرے میں بلند مقام پانے کی فکر میں ہے اسے کوشش کرناچاہئے کہ اس مقام کومعاشرہ میں اعتمادکے ذریعہ حاصل کرے اور اپنی ایسی حیثیت بنائے کہ لوگ اس کی رفتار و گفتار پر پوری طرح اعتماد کریں او رکہیں : فلاں بیہودہ باتیں نہیں کرتا ہے اس کی باتیں سچی اور صحیح ہوتی ہیں، ایسی حیثیت دنیوی اور اخروی لحاظ سے فائدہ مند ہے، کیونکہ دنیوی پہلو سے صداقت اور راست گوئی کے عنوان سے مشخص ہے اور اخروی لحاظسے بھی خدا کی خوشنودی اور بہشت کے بلند درجات کی صورت میں اس کا نفع ہو گا۔

لہٰذا ہمیں کسی بھی بہانہ سے سنی سنائی باتوں کو نقل نہیں کرنا چاہئے۔یہی وجہ ہے کہ غور و خوض نہ کرنے کی وجہ سے ہم جو کچھ سنتے ہیں اس میں کچھ تصرف بھی کرتے ہیں یا ان میں کمی کرتے ہیں یااس میں کچھ بڑھادیتے ہیں، ہر صحیح اور درست مطلب کو بیان کرنا بھی صحیح نہیں ہے، ممکن ہے ایک سچی بات کو نقل کرنے میں مصلحت نہ ہو، ممکن ہے اس سے کسی کی آبرو خطرہ میں پڑجائے جو حرام او رناپسندیدہ ہے اور خدائے متعال کے غضب کا سبب بنے ، اس کے علاوہ بعض افواہیں ضعیف النفس اور سست ایمان افراد حکومت اور حکومت کے اراکین سے بدظن کرنے کا سبب واقع ہو لہذا بعض خبروں کو نقل کرتے وقت مصلحتوں کو مد نظر رکھناچاہئے۔ ہمیں فکر کرنی چاہئے کہ اس کا نقل کرناکوئی فائدہ رکھتا ہے یا نہیں؟مخاطب خبر کو برداشت اور قبول کرنے کی ظرفیت رکھتا ہے یا نہیں؟ اس کے علاوہ کیاوہ خبر کو دوسروں کے لئے نقل کرنے میں احتیاط اور دقت سے کام لیتاہے یا ہر جگہ ضرورت اور بے ضرورت نقل کرتاہے اور خبر کو کسی قسم کی کمی و بیشی کے ساتھ نقل کرتا ہے یا اسے کئی گنا بڑھاکر ہرایک کے لئے نقل کرتا ہے اور اس خبر کے نشر ہونے کے نتیجہ میں حکومت کمزور ہوگی، لوگوںکاحکومت کے بارے میں اعتماد ضعیف ہو جائے گا۔

حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبراسلام فرماتے ہیں:

”یا اباذر؛ ما من شی ءٍ احقُّ بطول السجن من اللِّسان“

”اے ابوذر !قید کی جانے والی ا شیاء میں زبان سے زیادہ سزاوارکوئی چیز نہیں ہے“

یہ بیان پیغمبر خداکی طرف سے ایک دستور تربیت ہے جوانسان کوبات کرنے میں زیادہ سے زیادہ دقّت اور احتیاط کرنے اور زبان کو قید میں رکھنے کی تاکید کرتاہے تاکہ وہ بے جا بات نہ کرے۔بعض علمائے اخلاق فرماتے تھے: خدائے متعال نے زبان کے سامنے دانتوں کو اور دانتوں کے سامنے ہونٹوں کو قرار دیا ہے ، حقیقت میں ہونٹوں اور دانتوں کو خلق کرنا ایک اشارہ ہےکہ ہم ان کے پیچھے اپنی زبان کو قید کئے رہیں۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17