زبان،وسیلہ ہدایت یا وسیلہ گمراہی



------------------------------------

۱۔ نہج البلاغہ (ترجمہ شہیدی) کلمات قصار/ ۳۹۲، ص/ ۴۳۲

۲۔ نہج البلاغہ (ترجمہ شہیدی) خطبہ/ ۱۷۶، ص/ ۱۸۴

۳۔ نہج البلاغہ (ترجمہ شہیدی) خطبہ/ ۱۷۶، ص/ ۱۸۴

سبب ہے اور اس میں اخروی ثواب ہیں، اس صورت میں انسان اپنی زبان کو حرکت دینے اور بات کرنے سے رضائے الہی تک پہنچتا ہے۔

بعض مواقع پر ، بات کے مطلوب او ر پسندیدہ ہونے کے سلسلے میں شرعی راہ سے معلومات حاصل کرنی جاہئے ورنہ انسان مطلوب کے حدود اور مشخصات کو نہیں پاسکتا ہے۔

بہت سے مواقع پر انسان اپنی عقل کے ذریعہ بات کے نیک ہونے کو تشخیص دیتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بات پسندید ہ ہے ، واجب یا مستحب ہے۔ اس صورت میں اگر انسان قصد قربت رکھتا ہو، تو اس کی بات عبادت شمارہوگی، مثال کے طور پر وہ اپنی بات کے ذریعہ کسی مظلوم سے ظلم کو دور کرنا چاہتا ہے یا اپنی بات سے کسی مظلوم کا حق ظالم سے واپس لینا چاہتا ہے۔یہ موارد”مستقلات عقلیہ“ میں سے ہیں کہ عقل ان کو درک کرنے میں آزاد ہے اور اسے حکم شرعی کی ضرورت نہیں ہے۔اگر ہمیںکوئی شرعی حکم بھی نہیں ملتا، تب بھی ہم اس بات کو درک کرتے ہیں کہ مظلوم سے ظلم کو دور کرنا واجب ہے اور اگر ہم اپنی بات سے کسی مظلوم سے ظلم کو دور کر سکیں ، تو وہ بات واجب اور رضائے الہی کا سبب ہے، اگر وہ بات واجب کی حد تک بھی نہ پہنچے تو کم از کم اس کے نیک ہونے کو ہم درک کرتے ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ یتیم کے سرپردستِ شفقت پھیرنا اور اسے خوش کرنا اور اپنی بات سے مصیبت سے دوچار ہوئے مومن کے غم و اندوہ کو دور کرنا ، پسندیدہ ہے ۔ ایسی صورت میں اگر انسان قصد قربت کرے تواس کا عمل عبادت ہے۔ ان مواقع کے مقابلہ میں بعض جگہوں پر ہم فعل کے جائز ہونے کے حدود تشخیص نہےں دے سکتے ہیں، ایسے مواقع پر شرعی احکام کے مانند ، شارع کو ہمارے لئے حکم بیان کرنا چاہئے ۔اگر چہ ہماری عقل بعض کلی چیزوں کو درک کرتی ہے ، لیکن ان کی خصوصیات شرائط اور حدود کو شارع مقدس معین کرتاہے، کہ وہ منابع فقہی سے استنباط کے بعدہمارے اختیار میں قرار دے، لہذا ایسے مواقع پر حکم شرع کا انتظار کرنا چاہئے ․ بعض مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ خدا کوپسند نہیں ہیں، ان کا انجام دیناصحیح نہیں ہے ، اور اگر انسان انھیں انجام دے تواس نے گناہ کیا ہے، اسے سزا ملے گی، چونکہ وہ خدا کوپسند نہیں ہیں اس لئے قصد قربت سے وہ عبادت نہیں بن سکتے۔ایسے مواردکے بارے میں انسان کی عقل مستقل طور پر تشخیص دیتی ہے اور شارع مقدس کی طرف سے حکم حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہےں ہے۔مثال کے طور پر زبان کے ذریعہ دوسروں کو تکلیف دینا، جھوٹ، تہمت اور دومومنوں کے درمیان زبان کے ذریعہ اختلاف پیدا کرنا یہ سبب امور عقلی کی بنا پر قابل مذمت ہیں۔

مذکورہ باتوں سے ہم نے نتیجہ حاصل کیا کہ بعض باتوں کے پسندیدہ یا ناپسندیدہ ہونے کو ہم واضح طور پر درک کرتے ہیں اوربعض دوسرے موارد ایسے ہیں کہ جہاں پر پسندیدیا ناپسندیدہ باتوں کے حدود و شرائط کو ہمارے لئے شارع مقدس بیان کرتا ہے۔

زبان سے بہرہ مند ہونے اور اس کے آفات سے بچنے کا طریقہ :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next