زبان،وسیلہ ہدایت یا وسیلہ گمراہی



”تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔ اس سے نرمی سے بات کرو شاید وہ نصیحت قبول کرے یا خوف خداپیدا ہو“

انبیاء کی بات کرنے کے آداب میں یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو لوگوں میں سے جانتے تھے اور ان کے ہر گروہ اور طبقہ سے ان کے فہم کے مطابق گفتگو کرتے تھے اور یہ حقیقت ان کی مختلف لوگوں کے ساتھ کی گئی گفتگو----جو تاریخ اور روایتوں میں نقل ہوئی ہے --- سے بخوبی معلوم ہوتا ہے․ چنانچہ شیعہ اور سنی دونوں کی طرف سے روایت کی گئی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

”انّا معاشر الانبیاء امرنا ان نکلِّمَ الناس علی قدر عقولہم“ ۱

” ہم پیغمبروں کا بنیادی کام یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ ان کی عقل کے مطابق بات کریں“ ۲

مزاح میں مشغول کرنے والی اور افراطی باتوں سے پرہیز:

آفات زبان اور زیان آور بحث و مباحثہ کے سلسلہ میں بہت سی روایتیں نقل ہوئی ہیں اور ہمارے فقہانے فقہ میں حرام باتوں کے بارے میں کئی باب مخصوص کئے ہیں ، جیسے جھوٹ ، غیبت ، مذاق اڑانا، مومن کو اذیت کرنا، ایسی بیہودہ اور مشغول کرنے والی باتیں ، جن کو ”لھو الحدیث“ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ انسان کو خدا سے دور کرتی ہے اور انسانی طبیعت کو معنویت اور خدا کے نور سے خالی کردیتی ہے۔ (اخلاق کی کتابوں میں اس پر مفصل بحث کی گئی ہے) بعض مواقع پر کسی عمل کے مذموم او ر حرام ہونا انسان کے لئے واضح ہوتا ہے، اس لئے انسان اس گفتگو یا عمل کے حکم کے بارے میں شک نہیں کرتا۔ لیکن بعض مواقع پر کچھ باتیں بظاہر مباح لگتی ہیں حتی انسان تصور کرتاہے کہ یہ پسندیدہ ہیں لیکن حقیقت میں وہ باتیں ناشائستہ اور حرام ہوتی ہیں ۔ایسے مواقع پرشیطان ہمیں دھوکہ دیتاہے اور ہم مشکوک باتوں کو آگاہانہ یا نیم آگاہانہ طور پر زبان

-----------------------------------------

۱۔ بحار الانوار، ج/ ۱، ص/ ۸۵، ح /۷

۲۔المیزان (دار الکتب الاسلامیہ ، طبع سوم) ج/ ۶، ص/ ۳۱۵۔۳۱۷

پرلاکر گناہ میں آلودہ ہوتے ہیں ، اگر چہ کبھی انسان کافی توجہ نہ کرنے کی وجہ سے خود اپنے کو دھوکہ دیتا ہے۔ اگر انسان مشکوک مواقع کے بارے میں صحیح فکر اور دقت کرے ، تو حقیقت کو درک کر سکتاہے، لیکن چونکہ وہ خواہشات سے مغلوب عمل کرتاہے، اپنی کام میں دقت نہیں کرتاہے اور اپنے عمل کو انجام دینے کے لئے ایک نہ ایک بہانہ تلاش کرتا ہے۔مثلاً ایک شوخ مزاج انسان جب ایک مجلس کو سرگرم کرنا چاہتا ہے اور اپنی باتوں سے دوسروں کہ شاد و مسرور کرنا چاہتاہے۔ تو بہانہ جوئی کرتاہے کہ مثلاً آج شبِ عید ہے اورمیں دوسروں کو شادکرناچاہتا ہوں۔ اسی بہانہ سے اوقات کو ضائع کرنے والی ایسی باتیں کرتاہے کہ ان کا کوئی معنوی حتی دنیوی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ اپنی عمر ضائع کرنے، دوسروں کو تکلیف پہنچانے اور برے اثرات کے علاوہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں ہوتا ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next