اھل بیت(علیہم السلام)کی محبت و عقیدت سے متعلق کچھ باتیں (2)



”السلام علیک یا وارث آدم صفوة اللّٰہ، السلام علیک یا وارث نوح نبي اللّہ، السلام علیک یا وارث إبراھیم خلیل اللّہ، السلام علیک یا وارث موسیٰ کلیم اللّٰہ، السلام علیک یا وارث عیسیٰ روح اللّٰہ۔۔۔ “

اے آدم کے وارث آپ پر سلام، اے نبیِ خد انوح کے وارث آپ پر سلام، اے خلیلِ خدا ابراھیم کے وارث آپ پر سلام، اے کلیمِ خدا موسیٰ کے وارث آپ پر سلام اے روحِ خدا عیسیٰ کے وارث آپ پر سلام۔۔۔

 ÛŒÛ میراث طول تاریخ میں آدم Ùˆ نوح سے Ù„Û’ کر رسول(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) خدا اور علی مرتضیٰ(علیہ السلام) تک جاری رھی۔

امام حسین(علیہ السلام) نے کربلا میں روز عاشورہ اس علمی،ثقافتی، تہذیبی اور جھادی میراث کو مجسم کر دیا،ولایت کی تاریخ بہت عمیق ھے، تاریخ میں اس کی جڑیں گھری ھیں، اھل بیت(علیہم السلام) نے انبیاء سے نیک و طویل راستہ میراث میں پایا ھے اور ھم نے ان سے ان کی میراث پائی ھے ۔

ھم نے ان سے نماز، روزہ، حج، زکوٰة، نیکیوں کی ھدایت کرنا، برائیوں سے روکنا، جھاد، خدا کی طرف بلانا، اور ان سے ذکر و اخلاص اور توحید کے تمام اقدارکی میراث پائی ھے،چنانچہ ھم خدا کے اس قول<فَخَلَّفَ مِن بَعدِھِم خَلفٌ اٴضَاعُوا ْالصَّلاةَ> پس ان کے بعد وہ لوگ جانشین ھوئے جنھوں نے نماز کو ضائع کر دیا، ھم نماز کی حفاظت کرتے ھیں اور اسے قائم کرتے ھیں، لوگوں کو اس کی طرف بلاتے ھیں، بالکل اس طرح جیسا کہ پھلے ھمارے بزرگوں نے حفاظت کی ھے، انشاء اللہ ھم ان لوگوں میں قرار پائیں جو خدا کے اس قول پر عمل کرتے ھیں: <وَاٴمُر اٴھلَکَ بِالصَّلاةِ وَ اصْطَبِر عَلَیْھَا> اپنے خاندان والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی ادا کرتے رھو۔ چنانچہ ھم اپنے معاشرہ اور اپنے خاندان میں خدا کی اس عظیم میراث کی حفاظت کرتے ھیں کہ جس کو ھم نے اپنے بزرگوں سے نسلا ً بعد نسل میراث میں پایا ھے۔

یہ ھے طول تاریخ میں ولاء کا سلسلہ اور زمانہٴ آئندہ میں ولایت کا سلسلہ ھے، جس کے لئے ھم آل محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں سے امام مھدی(علیہ السلام) کے ظھور کے منتظر ھیں اور ان کے ظھور کے ساتھ کشائش و کامیابی کے منتظر ھیں اور اس عالمی انقلاب کے منتظر ھیں جس کی خدا نے ھمیں اپنی کتاب میں اور اس سے پھلے توریت و زبور میں خبر دی ھے ۔

<وَلَقَد کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعدِ الذِّکرِ اٴنَّ الاٴرضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ>

ھم نے توریت کے بعد زبور میں یہ لکھ دیا ھے کہ زمین کی میراث صالح بندے پائیں گے۔

انتظار کے معنی منفی و سلبی نھیں ھیں جیسا کہ لوگ چاند و سورج گھن لگنے کا انتظار کرتے ھیں بلکہ انتظار کے معنی مثبت ھیں جیسا کہ انتظار سے متعلق حدیثوں سے سمجھ میں آتا ھے، اور وہ سیاسی، ثقافتی اور عملی تیاری تاکہ ظھور مھدی اور روئے زمین پر آنے والے عظیم انقلاب کے لئے راہ ھموار کریں۔

انتظار کے معنی اس مثبت مفھوم کے لحاظ سے، نیک باتوں کا حکم دینا، بری باتوں سے روکنا، خدا کی طرف بلانا، ظالموں سے جھاد کرنا، کلمة اللہ کو بلند کرنا اور روئے زمین پر خدائی تہذیب و ثقافت کو نشر کرنا، نماز قائم کرنا اور بہت سی چیز یں ھیں جو کائنات میں آنے والے انقلاب کی راہ ھموار کرتی ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next