امام زمانه(عجل الله تعالی فرجه الشريف) کے وجود پر عقلی اور منقوله دلايل



اسماعیل آگے بڑھا، اس جوان نے اس پھوڑے کو ھاتھ سے دبایا اور دوبارہ زین پر سوار هوگیا۔ بوڑھے نے کھا:”اے اسماعیل ! تم فلاح پا گئے، یہ امام(ع) تھے۔“

وہ روانہ هوئے تو اسماعیل بھی ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا، امام(ع) نے فرمایا:”پلٹ جاوٴ۔“

اسماعیل نے کھا:” آپ سے ھر گز جدا نھیں هوں گا۔“ امام(ع) نے فرمایا:”تمھارے پلٹ جانے میں مصلحت ھے۔“ اسماعیل نے دوبارہ کھا:”آپ سے ھر گز جدا نھیں هوسکتا۔“ بوڑھے نے کھا:”اسماعیل !تمھیں شرم نھیں آتی، دو مرتبہ امام نے فرمایا، پلٹ جاوٴ او رتم مخالفت کرتے هو؟“

          اسماعیل وھیں رک گیا، امام چند قدم آگے جانے Ú©Û’ بعد اس Ú©ÛŒ طرف متوجہ هوئے اور فرمایا: ”جب بغداد Ù¾Ú¾Ù†Ú†Ùˆ Ú¯Û’ØŒ ابو جعفر یعنی خلیفہ مستنصر باللہ، تمھیں طلب کرے گا۔ جب  اس Ú©Û’ پا س جاوٴ اور تمھیں کوئی چیز دے، اس سے نہ لینا اور ھمارے فرزند رضا سے کھنا علی بن عوض Ú©Ùˆ خط لکھیں، میں اس تک پیغام پھنچا دوں گا کہ جو تم چاهو Ú¯Û’ تمھیں عطا کر Û’ گا۔“

اس Ú©Û’ بعد اصحاب Ú©Û’ ساتھ روانہ هو گئے اور نظروں سے اوجھل هونے تک اسماعیل انھیں دیکھتا رھا۔ غم وحزن اور افسوس Ú©Û’ ساتھ Ú©Ú†Ú¾ دیر زمین پر بیٹھ کر ان سے جدائی پر روتا رھا۔ا س Ú©Û’ بعد سامرہ آیا تو لوگ اس Ú©Û’ ارد گرد جمع هوکر  پوچھنے Ù„Ú¯Û’ کہ تمھارے چھرے کا رنگ متغیر کیوں Ú¾Û’ ØŸ اس Ù†Û’ کھا: کیا تم لوگوں Ù†Û’ شھر سے خارج هونے والے سواروںکو پہچانا کہ وہ کون تھے ØŸ انهوں Ù†Û’ جواب دیا: وہ باشرافت افراد ھیں، جو بھیڑوں Ú©Û’ مالک ھیں۔ اسماعیل Ù†Û’ کھا: وہ امام(ع) اور آپ   (ع)Ú©Û’ اصحاب تھے اور امام   (ع)Ù†Û’ میری بیماری پر دست ِشفا پھیردیا Ú¾Û’Û”

جب لوگوں Ù†Û’ دیکھا کہ زخم Ú©ÛŒ جگہ کوئی نشان تک باقی نھیں رھا،  اس Ú©Û’ لباس Ú©Ùˆ بطور تبرک پھاڑ ڈالا۔ یہ خبر خلیفہ تک پھنچی،  خلیفہ Ù†Û’ تحقیق Ú©Û’ لئے ایک شخص Ú©Ùˆ بھیجا۔

اسماعیل نے رات سرداب میں گزاری اور صبح کی نماز کے بعد لوگوں کے ھمراہ سامراء سے باھر آیا، لوگوں سے خدا حافظی کے بعد وہ چل دیا، جب قنطرہ عتیقہ پھنچا تو اس نے دیکھا کہ لوگوں کا ھجوم جمع ھے اور ھر آنے والے سے اس کا نام ونسب پوچھ رھے ھیں۔نشانیوں کی وجہ سے اسے پہچاننے کے بعد لوگ بعنوان تبرک اس کا لباس پھاڑ کر لے گئے۔

تحقیق پر مامور شخص نے خلیفہ کو تمام واقعہ لکھا۔ اس خبر کی تصدیق کے لئے وزیر نے اسماعیل کے رضی الدین نامی ایک دوست کو طلب کیا۔ جب دوست نے اسماعیل کے پاس پھنچ کر دیکھا کہ اس کی ران پر پھوڑے کا اثر تک باقی نھیں ھے، وہ بے هوش هوگیا اور هوش میں آنے کے بعد اسماعیل کو وزیر کو پاس لے گیا، وزیر نے اس کے معالج اطباء کو بلوایا اور جب انهوں نے بھی معائنہ کیا او رپھوڑے کا اثر تک نہ پایا تو کھنے لگے :”یہ حضرت مسیح کا کام ھے“، وزیر نے کھا : ”ھم جانتے ھیں کہ کس کا کام ھے۔“

وزیر اسے خلیفہ کے پاس لے گیا، خلیفہ نے اس سے حقیقت حال کے متعلق پوچھا، جب واقعہ بیان کیا تو اسے ہزار دینار دئیے، اسماعیل نے کھا: میں ان سے ایک ذرے کو لینے کی جراٴت نھیں کرسکتا۔ خلیفہ نے پوچھا: کس کا ڈر ھے ؟ اس نے کھا: ”اس کا جس نے مجھے شفا دی ھے، اس نے مجھ سے کھا ھے کہ ابو جعفر سے کچھ نہ لینا۔“ یہ سن کر خلیفہ رونے لگا۔

علی بن عیسیٰ کہتے ھیں: میں یہ واقعہ کچھ لوگوں کے لئے نقل کر رھا تھا، اسماعیل کا فرزند شمس الدین بھی اس محفل میں موجود تھا جسے میں نھیں پہچانتا تھا، اس نے کھا: ”میں اس کا بیٹا هوں۔“ میں نے اس سے پوچھا :” کیا تم نے اپنے والد کی ران دیکھی تھی جب اس پر پھوڑا تھا؟“ اس نے کھا:”میں اس وقت چھوٹا تھا لیکن اس واقعے کو اپنے والدین، رشتہ داروں او رھمسایوں سے سنا ھے اور جب میں نے اپنے والد کی ران کو دیکھا تو زخم کی جگہ بال بھی آچکے تھے۔“



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next