فروع دین



اور ضرورتمندوں Ú©ÛŒ ضرورت پوری کرنے Ú©Û’ لئے اتنی توجہ Ú©ÛŒ کہ ایثار کا دروازہ کھول دیا اور ارشاد هوا: <وَیُؤْثِرُوْنَ عَلیٰ اٴَنْفُسِہِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَةٌ> [43] اور ایثار Ú©Ùˆ کمال Ú©Û’ اس درجے تک پھنچاتے هوئے کہ جس Ú©Û’ بعد کوئی اور درجہ قابل تصور نھیں ،فرمایا: <وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّہ مِسْکِیْناً وَّیَتِیْماً وَّ اٴَسِیْراًة  إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَاشَکُوْرًا> [44]

دین اسلام Ù†Û’ انفاق Ùˆ صدقے Ú©Ùˆ فقط مال تک محدود نھیں کیا بلکہ کمزور Ú©ÛŒ مدد اور نابینا Ú©ÛŒ راھنمائی Ú©Ùˆ بھی صدقہ قرار دیا Ú¾Û’Û” اعتبار Ùˆ حیثیت Ú©ÛŒ بدولت کسی Ú©ÛŒ مشکلات حل کرنے Ú©Ùˆ جاہ Ùˆ مقام Ú©ÛŒ زکات قرار دیا۔ فقط حوائج مادی پوری کرنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ فرمایا:<وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَ> [45] اور  Ú¾Ø± وہ چیز انسان کا رزق Ú¾Û’ جس پر زندگی کا دارومدار هو اسی لئے فرمایا:((Ùˆ ممّا علمناھم یبثون))[46]Û”

جو Ú©Ú†Ú¾ بیان کیا گیا وہ زکات Ùˆ صدقات سے متعلق مختصر طور پر اسلام Ú©ÛŒ حکمت کا تذکرہ تھا۔ اسلام Ù†Û’ اس مقدس قانون Ú©Û’ ذریعے اغنیاء Ú©Û’ نفوس Ú©Ùˆ بخل، حرص اور طمع Ú©ÛŒ کدورت اور زنگ سے بچایا اور ان Ú©Û’ اموال Ú©Ùˆ فقراء Ú©Û’ حقوق، جو ان Ú©Û’ خون Ú©Û’ مترادف ھیں، Ú©ÛŒ آلودگی سے پاک کیا Û” اور اس طرح سے غنی Ùˆ فقیر Ú©Û’ رشتے Ú©Ùˆ مستحکم کیا  اور ان دو طبقات، جن سے معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل پاتا Ú¾Û’ØŒ Ú©Û’ درمیان تمام فاصلے مٹاکر کدورت Ú©Ùˆ الفت میں تبدیل کر دیا اور ان قوانین Ùˆ آداب Ú©ÛŒ برکت سے نہ صرف یہ کہ ضرورت مندوں Ú©ÛŒ حاجات Ú©Ùˆ پورا کیا بلکہ ان Ú©ÛŒ عزت نفس، آبرو، شرافت اور عظمتِ انسانی Ú©ÛŒ حفاظت فرمائی۔

غنی کو بخشش،کے بعد فقراء کا احسانمند اور شکر گذار هونے کا حکم ،ایسی باران رحمت کی مانند ھے جس کے ذریعے خداوند تعالیٰ نے فقراء کی آتش حسد کو بجھایا، اموالِ اغنیاء کو، جن کا معاشرے کی رگوں میں خون کی مانند دوڑنا ضروری ھے تاکہ امت کے معاشی نظام کی حفاظت هوتی رھے، زکات و صدقات کے حصار میں بیمہ کر دیا۔ امیرالمومنین(ع) فرماتے ھیں:((و حصّنوا اٴموالکم بالزکاة))[47]

کیا اغنیاء کے مال اور دانشوروں کے علم کی اس کمیّت و کیفیت کے ساتھ عطا و بخشش کے ذریعے معاشرے سے مادی و معنوی فقر کی بنیادوں کو نھیںڈھایا جاسکتا؟!

یہ فرد Ùˆ معاشرے Ú©ÛŒ سعادت Ú©Û’ لئے نماز Ùˆ زکات Ú©ÛŒ حکمت Ùˆ اثر کا نمونہ تھا۔ لہٰذا جس دین Ù†Û’ ھر حرکت وسکون اور فعل Ùˆ ترک میں انسان Ú©ÛŒ Ú©Ú†Ú¾ ذمہ داریاں معیّن Ú©ÛŒ هوں جو واجبات، محرمات، مستحبات، مکروھات اور مباحات Ú©Û’ مجموعے Ú©Ùˆ تشکیل دیتی ھیں اور افراد Ú©ÛŒ جان، عزت Ùˆ آبرو  اور مال Ú©ÛŒ حفاظت Ú©Û’ لئے جو قوانین، حقوق اور حدود معیّن کئے گئے ھیں، ان پر عمل کرنے سے کیسا مدینہ فاضلہ تشکیل پاسکتا Ú¾Û’ØŸ

 Ù…ثال Ú©Û’ طور پر وہ حیوان جس سے انسان کام لیتا Ú¾Û’ØŒ اس Ú©Û’ حقوق کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح وروشن هو جاتی Ú¾Û’ کہ اس دین مبین میں انسانی حقوق Ú©ÛŒ کس طرح ضمانت دی گئی Ú¾Û’Û”

جس جانور پر انسان سوار هوتا ھے، اس کے حقوق یہ ھیں: منزل پر پھنچنے کے بعد، اپنے کھانے کا انتظام کرنے سے پھلے، اس کے لئے چارہ مھیا کرے، جب کھیں پانی کے پاس سے گزرے اسے پانی پلائے تا کہ پیاسا نہ رھے، اس کے منہ پر تازیانہ نہ مارے، اس کی پیٹھ پر میدان جھاد میں ضرورت کے وقت کے علاوہ، کھڑا نہ هو، اس کی طاقت سے زیادہ سنگین وزن نہ لادے اور کام نہ لے، اسے بُرا بھلا نہ کھے، اس کے چھرے کو بدصورت نہ بنائے، خشک زمین پر تیز اور علف زار میں آھستہ چلائے اور اس کی پیٹھ پر گفتگو کی محفل نہ جمائے۔

اور اگر دریا کے کنارے دسترخوان لگائے، باقی بچنے والی غذا کو پانی میں ڈال دے تا کہ دریائی جانور اس کی ھمسائیگی سے بے بھرہ نہ رھیں۔

اور جس زمانے میں پانی میں موجود خوردبین سے نظر آنے والے جانداروں کی کسی کو خبر تک نہ تھی، حکم دیا کہ پانی میں پیشاب نہ کریں کہ پانی کی بھی کچھ مخلوق ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 next