کیا خدا کا بھی کوئی خالق ھے ؟



اسی طرح انسانوں کے کام محض کسی اتفاق اور حادثے کی بنا پر خود ان ھی کے ھاتھوں انجام نھیں پاتے بلکہ ایک سلسلہ ٴ عوامل کے تحت انجام پاتے ھیں پھلے انسان کسی کام کے بارے میں سوچتا ھے ۔پھریہ طے کرتا ھے کہ یہ کام اس کے لئے فائدہ مند ھو گا یا نھیں ۔ جب اسے کام کے مفید ھونے کا یقین ھو جاتا ھے تو پھر وہ اسے انجام دینے کی کوشش کرتا ھے ۔

اس سے یہ بات ثابت ھوئی کہ دنیا میں رو نما ھونے والا ھر واقعہ کسی نہ کسی سبب اور علت کی بنا پر رو نما ھوتا ھے ۔ اسباب و علل کا یہ ایک ایسا نظام ھے جس میں کوئی تبدیلی نھیں ھوتی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس نظام کو ایسا ھی بنایا ھے ۔

واضح ھے کہ یہ عقیدہ آزادی اور اختیار کے اصول کے منافی نھیں ھے۔ کیونکہ خود اختیار اور آزادیدنیا کے اسباب و علل ھی کا ایک حصہ ھے ۔ انسان اس آزادی سے فائدہ اٹھا کر اپنیتوانائی کے مطابق کام انجام دیتا ھے اور اگر نھیں چاھتا تو انجام نھیں دیتا ۔

اب ھم سطور ذیل میں اس بحث کی مکمل وضاحت کرینگے :

دنیا میںجو بھی واقعات رونما ھوتے ھیں انھیں تین قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ھے :

۱۔ ایک نظریے کے مطابق دنیا کے موجودہ حوادث اور واقعات کا ماضی سے کوئی رشتہ نھیں ۔ اس دنیا میں جو بھی واقعہ خواہ وہ کسی دور میں واقع ھوا ھو ، اس کا پچھلے امور سے کوئی تعلق نھیں ، اس کا ظھور سابقہ امور سے مربوط نھیں ھے ۔ نہ اس کی خصوصیات اور شکل و صورت اور مقدار و پیمائش کا ماضی کی چیزوں سے کوئی رابطہ ھے ۔

اس مفروضے کے مطابق کسی بھی چیز کی قسمت و سر نوشت پھلے سے نھیں لکھی گئی ۔ اس لئے واقعات اور چیزوں کے اصل سبب اور علت کا یکسر انکار ضروری قرار پاتا ھے اور یہ ماننا بھی ضروری قرار پاتا ھے کہ تمام رونما ھونے والے واقعات کسی اندازے اور حساب کے بغیر اتفاقاً رونما ھو گئے ھیں جبکہ اسباب و علل کا قانون ایک عام قانون ھے اور ھر حادثہ حتمی اور قطعی صورت اس وقت اختیار کرتا ھے اور اس وقت ظھور میں آتا ھے جبکہ وہ پچھلے واقعات سے مربوط ھو ۔

مختصر یہ کہ واقعات کا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ حتمی اور ضروری ھے ۔ اس بات سے انکار نھیں کیا جا سکتا کہ تمام واقعات کی کڑیاں اپنے ما قبل اور ما بعد واقعات سے جڑی ھوتی ھیں ۔

۲۔ دوسرا مفروضہ یہ ھے کہ ھم ھر رونما ھونے والے حادثے اور واقعے کے لئے ایک علت و سبب کے قائل ھو جائیں لیکن اس بات کو تسلیم نہ کریں کہ اسباب اور مسببات کا ایک پورا نظام موجود اور کار فرما ھے ۔ اور یہ خیال کر لیں کہ دنیا میں ایک سبب اور ایک فاعل سے زیادہ کا وجود نھیں ھے اور وہ فاعل ، ذات خدا وندی ھے ۔ تمام واقعات اور چیزیں بغیر کسی واسطے کے براہ راست اسی کے ذریعہ ظھور میں آتی ھیں اور خدا کے سوا کوئی عامل موجود نھیں ھے اور ھم یہ کھیں کہ اللہ تعالیٰ نے روز ازل ھی جان لیا تھا کہ دنیا میں فلاں حادثہ فلاں وقت ظھور میں آئے گا اس لئے جبراً و قھراً واقعہ اسی وقت رونما ھو جاتا ھے اور اس حادثے کے ظھور میں کسی اور چیز کا عمل دخل نھیں ھوتا ۔ انسان کے افعال اور اعمال بھی اسی طرح کے حوادث میں سے ایک ھیں ۔ جو اختیار کے بغیر وجود میں آ جاتے ھیں ۔ اور خود انسان ان کاموں میں مداخلت کی طاقت نھیں رکھتا ۔ یہ تو صرف ایک ظاھری اور خیالی پردہ ھے جو ھمیں دکھائی دیتا ھے ۔

 ÛŒÛ نظریہ بھی دو وجوہ سے نا قابل قبول Ú¾Û’ :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next