کیا خدا کا بھی کوئی خالق ھے ؟



امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ھے :

” وہ لوگ جو گناھوں کی وجہ سے مرتے ھیں ان کی تعداد ان مرنے والوں سے زیادہ ھے جو مھلت عمر کے ختم ھو جانے کی بنا پر اس دنیا سے رخصت ھوتے ھیں اور ان لوگوں کی تعداد جن کی عمر ان کی نیکوکاری کی وجہ سے دراز کی جاتی ھے اپنی طبعی اور اصلی عمر کے ساتھ زندہ رھنے والوں سے زیادہ ھے ۔“

اب جبکہ بات واضح ھو چکی ھے ، قضا و قدر پر اعتقاد کا مطلب یہ نھیں ھے کہ لازماً جبر پر بھی یقین رکھا جائے ۔

اب ھم جبر پر اعتقاد کے غلط ھونے کو ثابت کریں گے ۔

۱۔ ذمہ دار یا مکلف ھونا ۔

ھر دینی اور اخلاقی مکتب کی بنیاد ، فرض اور ذمہ داری ھے جو جبر کے ساتھ کوئی مطابقت نھیں رکھتی ۔ اگر لوگ اپنے کاموں کی انجام دھی پر مجبور ھوں تو پھر امر و نھی ، بدلے اور سزا، جنت و دوزخ ، سب بے معنی ھو کر رہ جاتے ھیں ۔ جب کسی کو کسی کام سے باز رھنے کا اختیار نھیں تو اس سے یہ کھنا کہ اس کام سے باز آجاؤ ، فضول ھو گا ۔ جب آپ ایک عاقل انسان سے ایسی بات کی توقع نھیں کرتے تو پھر خداوند حکیم سے کس طرح توقع رکہ سکتے ھیں ۔

مکلف ھونے کا مسئلہ ھی اس بات کی بھترین دلیل ھے کہ اسلام اور تمام آسمانی مذاھب میں سے کوئیبھی جبری آئین و قانون نھیں رکھتا ۔

۲۔ ھم سب وجدانی طور پر یہ جانتے ھیں کہ ھم کاموں کے انجام دینے میں مشین کی طرح نھیں ھیں کہ اختیار و ارادہ کے بغیر ھم سے کام سرزد ھو رھے ھوں ۔ ھم اس بات کو پوری طرح محسوس کرتے ھیں کہ تمام کام ھم آزادی اور اختیار کے ساتھ اور اپنی مرضی سے انجام دیتے ھیں ۔ اسی لئے جس کسی شخص کے حقوق کو پائمال کیا جاتا ھے ، ھم اسے حق دیتے ھیں کہ وہ اپنے حقوق کا دفاع کرنے کے لئے عدالت سے رجوع کرے ۔

اگر انسان اپنے کاموں میں مجبور ھوتا تو اس صورت میں اس شخص کو جس کا حق پائمال کیا گیا ھے یہ حق حاصل نہ ھوتا کہ وہ اعتراض کرے اور غاصب کو عدالت میں کھینچے ۔

۳۔اس سلسلے میں ھم نے جو کچھ لکھا ھے اس کے علاوہ قرآن کریم کی بھت سی آیتیں ، انسانی آزادی و اختیار کے اصول کی تصریح کرتی ھیں اور واضح طور پر یہ بتاتی ھیں کہ اپنی نجات اور گمراھی ، سعادت و بد بختی ، ترقی اور پسماندگی میں خود انسان کے اپنے عمل و اختیار کو بڑا دخل حاصل ھے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next