غدیر کے سلسله میں اعتراضات کی تحقیق



جواب: 

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اسی موقع پر حضرت علی علیہ السلام کے خلاف اعتراض کرنے والوں کو ڈراتے ھوئے تین بار فرمایا:

”تم علی (علیہ السلام) سے کیا چاہتے ھو۔۔۔۔“

دوسرے: بہت سی روایات کے مطابق غدیر خم کا واقعہ خداوندعالم کے حکم سے تھا نہ کہ بعض لوگوں کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کی شکایت کی بنا پر۔

تیسرے: اور اگر فرض کریں کہ یہ دونوں واقعے ایک ھیں تو بھی حدیث غدیر کی دلالت حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور سرپرستی پر کامل ھے؛ کیونکہ ”بریدہ“ وغیرہ کا اعتراض تقسیم سے پھلے غنائم میں تصرف کرنے کی وجہ سے تھاکہ حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اس حدیث اور حدیث غدیر کو بیان کرکے اس نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ حضرت علی علیہ السلام ھر قسم کے دخل و تصرف کا حق رکھتے ھیں، کیونکہ وہ امام اور ولی خدا ھیں۔

چوتھے: غدیر خم کا واقعہ ”بریدہ“ کے واقعہ کے بعد پیش آیا جس کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نھیں تھا۔ علامہ سید شرف الدین تحریر کرتے ھیں:

” پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو دو مرتبہ یمن بھیجا، پھلی مرتبہ سن ۸ ہجری میں[35] کہ جب حضرت علی علیہ السلام یمن سے واپس آئے تو کچھ لوگوں نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی خدمت میں آپ کی شکایت کی، اس موقع پر رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)ان لوگوں پر غضب ناک ھوئے اور ان لوگوں نے بھی خود اپنے سے عہد کیا کہ اس کے بعد پھر کبھی حضرت علی علیہ السلام پر اعتراض نہ کریں گے۔ دوسری مرتبہ سن ۱۰ ہجری میں[36]

اس سال پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے علَم حضرت علی علیہ السلام کے ھاتھوں میں دیا، اپنے مبارک ھاتھوں سے آپ کے سر پر عمامہ باندھا، اور آپ سے فرمایا: روانہ ھوجائیں اور کسی پر توجہ نہ کریں۔۔۔ اس موقع پر کسی نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے حضرت علی علیہ السلام کی شکایت نھیں کی اور آپ پر حملہ نھیں کیا، تو پھر کس طرح حدیث غدیر کا بریدہ وغیرہ کے اعتراض کرنے کی وجہ سے بیان ھونا ممکن ھے۔۔۔[37]

پانچوے: فرض کریں کہ کسی نے حضرت علی علیہ السلام کے خلاف کچھ کھا ھو، تو بھی کوئی وجہ دکھائی نھیں دیتی کہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اس عظیم مجمع کو تپتے ھوئے صحرا میں روکیں اور ایک چھوٹی چیز کی وجہ سے اس کو اتنی اھمیت دیں۔

چھٹے: اگر رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی مراد صرف حضرت امیر علیہ السلام کی فضیلت بیان کرنا اور اعتراض کرنے والے کی تردید تھی تو واضح الفاظ میں اس مطلب کو بیان کرنا چاہئے تھا، مثال کے طور پر یہ فرمانا چاہئے تھا: یہ شخص میرے چچا زاد، میرے داماد، میرے فرزندوں کے پدر گرامی اور میرے اھل بیت کے سید و سردار ھیں، ان کو اذیت نہ پھنچانا وغیرہ وغیرہ، ایسے الفاظ جو حضرت علی علیہ السلام کی عظمت و جلالت پر دلالت کرتے ھوں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 next