غدیر کے سلسله میں اعتراضات کی تحقیق



 Ø² علامہ فخر الدین رازی آیہ شریفہ <ہِیَ مَوْلَاکُمْ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ>[16]ØŒ Ú©ÛŒ تفسیر Ú©Û’ سلسلہ میں کلبی، زجاج، ابی عبیدہ اور فرّاء سے نقل کرتے ھیں کہ مولا Ú©Û’ معنی ”اولیٰ بکم“ یعنی اولیٰ (بالتصرف) Ú©Û’ ھیں[17]

 Ø² بغوی Ù†Û’ بھی اس آیت Ú©ÛŒ تفسیر اس طرح Ú©ÛŒ Ú¾Û’: ”صاحبتکم Ùˆ اولیٰ بکم“[18] یعنی تمھارا ھمدم اور تم پر اولیٰ اور زیادہ حقدار شخص۔

یھی تفسیر زمخشری، ابو الفرج ابن جوزی، نیشاپوری، قاضی بیضاوی، نسفی، سیوطی اور ابو السعود سے بھی مذکورہ آیت کے ذیل میں بیان ھوئی ھے[19]

ب۔ متکلمین کے بیانات:

بہت سے علمائے علم کلام جیسے سعد تفتازانی، علاء قوشچی وغیرہ نے بھی لفظ ”مولیٰ“ کے یھیمعنی کئے ھیں، چنانچہ تفتازانی کہتے ھیں:

 â€Ú©Ù„ام عرب میں لفظ ”مولا“ کا استعمال:  متولی، مالک امر اور اولیٰ بالتصرف Ú©Û’ معنی میں مشھور Ú¾Û’ اور بہت سے علمائے لغت Ù†Û’ اس معنی Ú©ÛŒ طرف اشارہ کیا Ú¾Û’[20]

ج۔ اھل لغت کا بیان:

بزرگ علماء لغت جیسے فرّاء، زجّاج، ابوعبیدہ، اخفش، علی بن عیسی رمّانی، حسین بن احمد زوزنی، ثعلب اور جوھری وغیرہ نے لفظ ”مولا“ کے لئے ”اولیٰ بالتصرف“ کے معنی کی طرف اشارہ کیا ھے۔

لفظ ”مولیٰ“ کی اصل:

لفظ ”مولیٰ“ کی اصل”ولایت“ ھے، اس لفظ کا اصل مادہ قرب اور نزدیکی پر دلالت کرتا ھے، یعنی دو چیزوں کے درمیان ایسے قرب کی نسبت ھو جن کے درمیان کسی چیز کا فاصلہ نہ ھو۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 next