غدیر کے سلسله میں اعتراضات کی تحقیق



ساتوے: اس حدیث شریف (غدیر) سے اولیٰ بالتصرف، سرپرستی اور امامت کے علاوہ کوئی دوسرے معنی ذھن میں تبادر نھیں کرتے، اب چاھے اس حدیث کے ذکر کرنے کا سبب کچھ بھی ھو، ھم الفاظ کو ان کے حقیقی معنی پر حمل کریں گے اور اسباب و علل سے ھمیں کوئی تعلق نھیں ھے، مخصوصاً جبکہ عقلی اور منقولہ قرائن اسی معنی کی تائید کرتے ھیں۔

۱۳۔ دو تصرف کرنے والوں کا ایک ساتھ جمع ھونا!!

محمود زعبی کا کھنا ھے:

اگر حدیث غدیر کی دلالت کو ولایت، اولیٰ بالتصرف اور سرپرستی پر قبول کریں تو اس سے لازم یہ آتا ھے کہ ایک زمانہ میں مسلمانوں کے دو سرپرست اور دو مطلق تصرف کرنے والے جمع ھوجائیں۔ چنانچہ اگر ایسا ھو تو بہت سی مشکلات پیدا ھوجائیں گی[38]

جواب:

اول: حدیث غدیر سے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت، سرپرستی اور اولیٰ بالتصرف ھونا ثابت ھوتا ھے، لیکن پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے زمانہ میں حضرت علی علیہ السلام کے تصرفات رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے تصرف کے تحت ھوتے تھے، یعنی حضرت علی علیہ السلام آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی غیر موجودگی میں تصرفات کرتے تھے۔

دوسرے: دو ولایتوں کے جمع ھونے میں کوئی مشکل نھیں ھے، اگر کوئی مشکل ھے بھی تو وہ دو تصرف کے جمع ھونے میں ھے، نیز دو ولایتوں کا ثابت ھونا تصرف کے فعلی ھونے کا لازمہ نھیں ھے۔

تیسرے: دو تصرف کے جمع ھونے میں مشکل اس وقت پیش آتی ھے کہ ایک تصرف دوسرے کے برخلاف ھو، جبکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اور حضرت علی علیہ السلام کے تصرف میں کوئی اختلاف نھیں ھے۔

چوتھے: سب سے اھم بات یہ ھے کہ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت، رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد نافذ ھے۔

 



[1] الفِصَل، ج۴، ص۲۲۴۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 next