غدیر کے سلسله میں اعتراضات کی تحقیق



جواب:

اول: کوئی بھی دلیل حضرت علی علیہ السلام کی خلافت سے پھلے دیگر خلفاء کی خلافت پر موجود نھیں ھے تاکہ ان کے درمیان جمع کرتے ھوئے یہ بات کھیں۔

دوسرے: اس حدیث اور حدیث ”ولایت“ کو جمع کرتے ھوئے کہ جس میں ”بعدی“ (یعنی میرے بعد) کا لفظ موجود ھے، یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ حضرت علی علیہ السلام، رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے فوراً بعد خلیفہ ھیں۔ کیونکہ صحیح السند احادیث کے مطابق رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

”وھو ولی کل مومن بعدی“[28]

”(علی علیہ السلام) میرے بعد ھر مومن کے ولی و آقا ھیں۔“

اور یہ بعد کے معنی اتصال کے ھیں۔

تیسرے: خود حدیث غدیر کا ظھور مخصوصاً قرائن حالیہ ومقالیہ کے پیش نظر یہ ھے کہ حضرت علی علیہ السلام، پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بلافصل خلیفہ ھیں۔

چوتھے: حدیث غدیر کا نتیجہ یہ ھے کہ حضرت علی علیہ السلام تمام مسلمانوں کے یھاں تک کہ خلفائے ثلاثہ کے بھی سرپرست ھیں، تو پھر یہ بات حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت سے ھم آھنگ ھے۔

پانچوے: اگر عثمان کے بعد حضرت علی علیہ السلام خلیفہ ھوں تو پھر عمر بن خطاب نے روز غدیر خم حضرت علی علیہ السلام کو کیوں مبارکباد پیش کی اور آپ کو اپنا اور ھر مومن و مومنہ کا مولا کہہ کر خطاب کیا؟!

۶۔ باطنی امامت، نہ کہ ظاھری امامت!!

بعض لوگوں کا کھنا ھے: حدیث غدیر میں ”ولایت“ سے مراد ”ولایت باطنی ھے نہ کہ ولایت ظاھری“ جو حکومت اور عام مسلمانوں پر خلافت اور سرپرستی کے مترادف ھے، اس تاویل کے ذریعہ اھل سنت نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام اور خلفائے ثلاثہ کی خلافت کے درمیان جمع کرنے کی کوشش کی ھے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 next