مہدی موعود محمد بن حسن عسکری(علیہ السلام) ھیں



حدیث کی سند میں احمد بن حسین بن عمر بن یزید ھے کہ جو تمام علما کے نزدیک ثقہ ھے اور اس سے پھلے کے بھی تمام افراد وثاقت کے حامل ھیں۔ اسی طرح جیسا کہ نجاشی ان کی سوانح حیات کے بارے میں کہتے ھیں کہ؛ وہ دو اماموں امام کاظم اور اما م صادق(علیہ السلام) سے حدیث بیان کرتے تھے لیکن ان کے بعد کے افراد کی وثاقت آیندہ کے بارے میں دی گئی خبروں کے واقع کے مطابق ھونے کی وجہ سے واضح و آشکار ھے اور یہ خبر ان کی صداقت پر شاہد ھے۔

۱۴۔ اسی طرح شیخ صدوق صحیح سندوں کے ساتھ محمد بن حسن سے اور وہ سعد بن عبد اللہ سے اور وہ ابو جعفر محمد بن احمد علوی سے اور وہ ابو ھاشم داود بن قاسم جعفری سے اس طرح حکایت کرتے ھیں کہ حضرت ھادی(علیہ السلام) سے ھم نے اس طرح سنا:

”میرے بعد میرا جانشین میرافرزند حسن ھے، اور ان کے جانشین کی نسبت تمھارا حال کیا ھو گا؟“میں نے کھا: کس اعتبار سے، خدا ھمیں آپ پر قربان کرے؟ فرمایا: کیونکہ تم خود ان کو نھیں دیکھو گے اور تمھارے لئے جایز بھی نھیں ھے کہ ان کا نام لو۔“ میں نے عرض کیا: پھر ھم انھیں کس طرح سے یاد کریں؟ فرمایا:کھو! آل محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی ایک حجت۔

اس حدیث کی سند معتبر ھے۔ چونکہ اس کے سارے رجال ثقہ ھیں اور علوی کہ جو اس حدیث میں نظر آتے ھیں، جیسا کہ رجال نجاشی میں”عمر کی بوفکی“کی سوانح حیات میں آیا ھے[18]

وہ جلیل القد مشایخ شیعہ میں سے ایک ھیں یھاں پر نصوص و احادیث کی اتنی ھی مقدار پر اکتفا کرتے ھوئے تین نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ھیں:

۱۔ آخری حدیث اس معنی میں نھیں ھے کہ امام مہدی کسی حالت میں دیکھے ھی نھیں جائیں گے۔ کیونکہ امام ھادی(علیہ السلام) کا فرمانا کہ تم ”خود ان کو نھیں دیکھ پاو گے“ یا حضرت کا نام لینے سے ”منع کرنا چنانچہ۔ اس نھی اور ممانعت کی احادیث صحیحہ میں علت، آنحضرت کی جان کا خطرہ بتایا جاتا ھے اس سے یہ بات روشن ھو جاتی ھے کہ امام ھادی کا وہ کلام امام کی ”غیبت“ سے کنایہ ھے مقصد یہ ھے کہ جب بھی تمھارا دل چاھے تو تم اپنے امام مہدی موعود کو نھیں دیکھ سکو گے۔ چونکہ حضرت کے دیدار کی تمھاری توانائی ھماری رویت کے مانندنھیں ھے کہ جب چاھو میرے دیدار کو آجاو۔ کیونکہ وہ پس پردہ غیبت کی زندگی گذاریں گے اور تم ان کا نام لینے سے پرھیز کرو تا کہ کھیں اےسا نہ ھو کہ خدا کے دشمن انھیں پہچان لیں اور ان کو اپنی گرفت میں لے لیں۔ خلاصہ یہ کہ حضرت کے دیدار کی نفی، ان کی ”غیبت“ سے کنایہ ھے اور نام لینے سے ممانعت آنحضرت کی جان کے خوف کی وجہ سے ھے، جب کہ یہ نفی اور منع دونوںغیبت کے زمانے میںاور بعض افراد سے مخصوص ھے؛ اس لئے کہ سیکڑوں شیعوں نے حضرت کے جمال انور کی ان کی والد گرامی کی حیات میں زیارت کی ھے، جس طرح دوسرے بہت سے لوگ ان باپ کی شھادت کے بعد ان کے دیدار سے مشرف ھوئے ھیں کہ جس کی شرح اسی فصل میں آئے گی۔

۲۔ مذکورہ احادیث، بہت زیادہ اخبار کا ایک مختصر سا حصہ ھے جو اس سلسلہ میں وارد ھو ئی ھیں اور ان کا انتخاب کرنا علمی اعتبار کا محتاج نھیں ھے، یعنی ھم اپنے نظریہ کو راسخ کرنے اور اسے مستدل و محکم بنانے کی فکر میں نھیں تھے کہ اس روایت کی سندی اعتبارے سے تحقیق و جستجو کر تے۔ چونکہ ھمارا عقیدہ اس مرحلہ سے پھلے ھی منطقی اصول و ضوابط سے استوار تھا، بلکہ ان احادیث کی سند کے اعتبار سے چھان بین اور بحث و تلاش، ھمارے عقیدہ کی حقانیت کے اثبات کے لئے ایک وسیلہ تصور کی جاتی ھے۔ ورنہ دو اعتبار سے ھم اصلاً سندی بحث کے محتاج نھیں ھیں۔

الف۔ امام مہدی(علیہ السلام) کی حیات طیبہ کے سلسلہ میں ناقابل انکار قطعی دلیل کا ھونا آخر زمانہ تک کہ جس کا تفصیلی بیان گذر چکا ھے۔

ب۔ معتبر ماخذ کا وجود اس بات پر کہ احادیث المہدی بلا واسطہ اور براہ راست ان کتابوں سے ماخوذ ھے کہ جو آنحضرت کی ولادت سے دسیوں سال پھلے تالیف ھو چکی ھیں، چنانچہ شیخ صدوق نے اس کی گواھی دی ھے۔ اس بنیاد پر بعض سند کا اصطلاحی ضعف ان روایات سے اس کی صحت اور اعتبار میں کسی طرح کی مشکل پیدا نھیں کر سکتا۔ کیونکہ آیندہ کے بارے میں جو خبریں اس میں پائی جاتی ھیں، در حقیقت معجزہ نما سخن ھے کہ کچھ مدت گذر نے کے بعد اس کے مفاد کا تحقق ان احادیث کی صحت کو ثابت کرتا ھے۔

۳۔ احادیث المہدی کہ جو نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اور ائمہ معصومنین(علیہ السلام) سے وارد ھوئی ھیں، سب ایک حقیقت کی خبر دیتی ھیں کہ اکثر موثق اور سچے راویوں نے اس کی حکایت کی ھے ”صحیح“ اور ”ضعیف“ کے درمیان اثبات کے اعتبار سے ان احادیث کے درمیان کوئی فرق نھیں ھے؛ اس لئے کہ اگر کوئی قابل اعتماد اور ثقہ شخص زید کے مرنے کی خبر دے، پھر اس کے بعدایک دوسرا نا معلوم آدمی اس کے مرنے کا واقعہ بیان کرے، تو اس سے نھیں کھیں گے کہ: تم جھوٹ بول رھے ھو اور اسی طرح اگر تےسرا اور چوتھا شخص بلکہ دسیوں ا فراد اسی ترتیب سے اگر ھم کو خبر دیں تو ان کی ھم تکذیب نھیں کریں گے، اگرچہ ان کی صداقت اور سچائی کا معیار ھمارے لئے کسی جہت سے روشن نہ ھو، بلکہ ان خبروں میں سے ھر ایک احتمال آور قرینہ شمار ھوکہ جس کو ایک قابل اعتماد اور سچے شخص کی خبر پر اضافہ کیا جا سکتا ھو، یھاں تک قرائن کی کثرت اور احتمالات کی زیادتی کی وجہ سے، اس خبر کا مفاد ھمارے لئے یقین کے درجہ تک پھونچ جائے اور اس کی نقیض کا احتمال۔ (اس خبر کا غلط اور غیر واقعی ھونا) رفتہ رفتہ ضعیف اور ضعیف تر ھوتا جائے یھاں تک کہ صفر کے درجہ تک پھونچ جائے احتمالات کا حساب و کتاب اور اس کے ریاضی قوانین، ”یقین موضوعی“ کی تحصیل کے محور پر ھمیشہ ایک مدار پر (اخبار کی زیادتی) یکساں ھوتے ھیں اور محال ھے کہ ایک خاص مورد میں یہ معیار صادق اور واقع کے مطابق نہ ھو۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 next