مہدی کے معتقدین کے فرائض سے متعلق بحث



ان لوگوں کی واضح علامت جو حضرت حجت قائم(علیہ السلام) کی غیبت کے زمانے میں ”انتظار“ کے عادی ھوں گے کلام نبوی میں واضح طور پر بیان ھوئی ھے۔ حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)آخری زمانے کے منتظرین کے بلند مقام کی عظمت وشان بتاتے ھوئے صحابہ سے خطاب فرماتے ھیں:

”لِاَحَدِھِمْ اَشَدَّ بَقِیَّةً عَلٰی دِیْنِہ،مِنْ خَرْطِ الْقَتَادِ فِی اللَّیْلَةِ الظُّلْمَاءِ، او کالقابض علی جمرالغضا؛اولئک مصابیح الدجیٰ۔۔۔؛[6]

 Ø§Ù† Ú©ÛŒ مثال ایسی Ú¾ÙˆÚ¯ÛŒ کہ ان میں سے ھر ایک تاریک راتوں میں خاردار درخت Ú©ÛŒ چھال Ú©Ùˆ خالی ھاتھوں سے تراش رھا Ú¾Ùˆ (صبر کرتاھے) اپنی دینداری Ùˆ پایداری کا ثبات قدمی سے مظاھرہ کر رھا ھو، یقینا وہ لوگ تاریک رات میں ہدایت Ú©Û’ چراغ ھیں۔

اسلام میں انفرادی اور اجتماعی عدالت کے درمیان ایک گھرا رابطہ ھے۔ اسلام کی نظر میں، اجتماعی سماجی عدالت کا سر چشمہ انفرادی عدالت پر موقوف ھے جس کی رعایت معاشرہ کی ھر ایک فرد کے لئے ضروری ھے؛ یہ اس معنی میں ھے کہ ایک مجموعی مھرے کا توازن و تعادل اس کے کل پر تمام ھوتا ھے۔

عدل ظلم کے مد مقابل ھے (منطقیوں کے بقول ان دونوں کے درمیان ملکہ و عدم ملکہ کی نسبت ھے) جو ظالم ھوگا وہ عادل نھیں ھوگا اور جھاں پر ”ارتکاب گناہ‘--‘ کا اطلاق نفس کے ساتھ ظلم شمار کیا جاتاھے گناہگار انسان ھر طرح کے اجتماعی ظلم کے لئے ذھنی آمادگی رکھتا ھے۔ کیونکہ عام طور پر جو اپنے حقوق کا خیال نھیں کرتا وہ دوسروں کے حقوق کی بھی قدر نھیں جانتا اور اسے پامال کرتا رہتاھے۔

جھاں پر تحفظ نفس کا ا حساس انسان کو ظلم وتعدی، طغیانی و سرکشی سے نھیں روک سکتا وھاں، اس تجاوز و سرکشی کو کنٹرول کرنے والے محافظین دوسروں کی نسبت زیادہ کار آمد ثابت نھیں ھوتے۔

اس لحاظ سے، ”انفرادی عدالت کے تحقق“کا مرتبہ ”اجتماعی عدالت کے نفاذپر“مقدم ھے ؛ یعنی نفسی عدالت کا حصول ”آفاقی عدالت“تک پھونچنے کا مقدمہ ھے۔

اس لحاظ سے اگر کوئی شخص گناھوں سے اجتناب اور تقوائے الٰھی Ú©ÛŒ رعایت کر Ú©Û’ اپنے اندر عدالت کا ملکہ پیدا کر Ù„Û’ اور اپنی نفسانی قوتوں Ú©Û’ درمیان تعادل Ùˆ توازن برقرار کرکے اخلاقی زندگی Ú©Û’ ارکان Ú©Ùˆ اپنے اندر راسخ کرلے تو پھر اس Ú¯Ú¾Ú‘ÛŒ عصر ظھور جو خالص اور مطلق عدل Ú©Û’ نفاذ کا زمانہ Ú¾Û’ خود Ú©Ùˆ توحید مہدوی Ú©Û’ جدید تمدن سے Ú¾Ù… آھنگ کرسکتا Ú¾Û’Ø› لیکن اس Ú©Û’ علاوہ کوئی فردعدالت سے استوار، تہذیب Ùˆ ثقافت Ú©Û’ جذب کرنے Ú©ÛŒ صلاحیت نھیں رکھتا۔ 

فطری طور پر ایسا شخص جدید شرائط اور جدید معیاروں سے ھم اھنگ نھیں ھوگا اور یہ تعارض و ٹکراو آخر تک اس کو حیران کرتا رھے گا۔اس طرح کے تاریخی نمونے علوی حکومت کے نورانی دور میں بھی آپ ملاحظہ کر سکتے ھیں۔ حضرت علی(علیہ السلام) اپنے زمانہ خلافت کے آغاز امر ھی سے یہ بات جانتے تھے کہ کچھ بے تربیت غیر مہذب نفوس جو ملکہ عدالت سے کوسوں دور ھوچکے ھیں وہ حضرت کی عدالت کو تحمل نھیں کرسکیں گے یھی وجہ ھے کہ انھوں نے خلافت قبول کرنے سے انکار کردیا یھاں تک کہ حضرت نے بھی ان پر حجت تمام کردی اور حکومت کے قائم ھونے کے بعد وھی ھوا جس کی مولا نے پھلے سے پیشنگوئی کی تھی؛ یعنی بہت سارے لوگ جو آپ کو حق پر جانتے تھے اور ان کے دل آپ کے ساتھ تھے مگر اس کے باوجود آپ کے خلاف تلوار لے کر اٹھ کھڑے ھوئے جس کا نتیجہ یہ ھوا کہ عدالت کا سر محراب عبادت میں شگافتہ ھوگیا؛ ”قُتِلَ فِی مِحْرَابِہ لِشِدَّةِ عَدْلِہ“ آپ محراب عبادت میں اپنے شدت عدل کی بنا پر قتل کردیئے گئے۔

ھاں، جو شخص بھی چاہتا ھے کہ اس کا شمارعدل منتظر کے حقیقی منتظرین میں ھو تو اسے چاہئے تقوی وپرھیزگاری اختیار کرے[7] اور پوری طرح سے مکارم اخلاق سے آراستہ ھو[8] اور حقیقی معنی میں مکتب انسانیت سے اپنا رابطہ برقرار رکھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next