مرجعیت کے لئے حضرت علی (ع) کی اہلیت



 

 

رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا اپنے بعد پوری ملت مسلمہ کا حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کو مرجعیت کی ذمہ داری سونپنا، نہ ہی بلاسبب تھا اور نہ ابن العم (چچازاد بھائی) ھونے کے ناطے تھا، نہ یہ پہلو دخیل تھا کہ یہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے داماد ہیں کیونکہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کسی فعل کو انجام نہیں دیتے تھے اور نہ ہی کوئی کلام کرتے تھے جب تک وحی پروردگار کا نزول نہ ھوجائے ہر امر میں حکم خدا کے تابع تھے، امور امت مسلمہ سے زیادہ ان کی نظر میں اقرباء پروری اہمیت نہیں رکھتی تھی، جس کی پائیداری اوراستحکام و استقامت کے لئے ایک طویل عرصہ سے جانفشانی کی تھی جو تقریباً چوتھائی صدی پر محیط تھا اس کے لئے انھوں نے بہت سارے معرکہ حل کئے ہیںاور ناگفتہ بہ مشکلات کو جھیلا ھے تب جاکر اس حکومت میں پائیداری آئی ھے جس کے منشورات میں سے یہ تھا کہ انسانیت دنیا میں خیر و صلاح کے مسلک پر گامزن ھوجائے تاکہ آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ھوسکے۔

جب کہ نبی کریم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) امت مسلمہ کے سلسلہ میں بہت حساس اور محتاط تھے اور اپنی حیات طیبہ ہی میںاس بات کے لئے کوشاں تھے اور بیحد فکر مند تھے تو کیا صرف یہ سونچ اور فکر ہی کافی ھوگی؟ اوراپنے بعد امت کو یوں ہی کسی دلدل میں چھوڑ دیںگے اور صراط مستقیم کی رہنمائی نہیں کریں گے جو ان کو راہ ابن جزری نے اسس المطالب کے ص۴۸ پر کہا ھے کہ اس رخ سے حدیث ”حسن“ ھے اور کئی ساری وجھوں سے صحیح ھے۔ امیر المومنین سے متواتر ھے اور رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے بھی متواتر ھے، لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے ایک جم غفیر سے اس کی روایت کی ھے ۔

ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ ص ۱۷۷، کہا ھے کہ تیس صحابیوں نے اس کو رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل کیاھے اور بہت سارے طرق سے یہ صحیح و حسن ھے۔

راست سے بھٹکنے سے بچاسکے اور گمراہی کی تاریکیوں سے باہر نکال سکے، نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بارے میں ایسا تصور کرنا بھی گناہ ھے کیونکہ قرآن کا اعلان ھے کہ: <عَزِیزٌ عَلَیہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیکُمْ بِالْمُوٴمِنِینَ رَؤُوفٌ رَحِیمٌ>[1] اس پر ہماری ہر مصیبت شاق ھوتی ھے وہ تمہارے ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ھے اور مومنین کے حال پر شفیق و مہربان ھے۔

ایسی صورت میں رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا حضرت علی (ع) کو منتخب کرنا یقیناً ارادہٴ خداوندی کے تحت تھا، جس طرح سے خدا کا انتخاب حضرت طالوت کے بارے میں تھا کیونکہ وہ علم و جسم دونوں میں نابغہٴ روزگار تھے۔

یہ با ت بالکل مسلم ھے کہ خدا کا انتخاب ممتاز حیثیت رکھتا ھے کیونکہ خدا بہتر جانتا ھے کہ بندوں کی قیادت کی باگ ڈور کس کے سپرد کی جائے۔

لہٰذا اب ان معروضات کے پیش نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت علی (ع) کی ذات والا صفات وہ ھے جواپنے زمانے میں سب سے زیادہ علم و شجاعت کے لحاظ سے قیادت کی اہلیت و صلاحیت رکھتی تھی، اور تاریخی حقائق اس بات پر گواہ ہیں، کیونکہ دراز مدت سے ہی نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنے اقوال و افعال کی شکل میں ان نعمتوں کے حامل تھے۔

علی(علیہ السلام) اعلم امت

اس میں کوئی شک نہیں کہ دینی اور دنیوی حکومت دونوں کا مدافع ھونا اس بات کا متقاضی ھے کہ امور دین و شریعت کا مکمل عالم ھو اور سیاست و قیادت کی باریکیوں سے بخوبی واقف ھو۔



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next