مرجعیت کے لئے حضرت علی (ع) کی اہلیت



اوراق تاریخ اس بات پرگواہ ہیں کہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد امت کے سب سے بڑے عالم، فیصلہ کرنے والے، اور قاضی حضرت علی (ع) ہیں۔

اس بات کی شہادت سب سے پہلے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے دی اس کے بعد اصحاب رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اور واقعات نے بڑھ کر اس حقیقت میں رنگ بھردیا، محدثین نے ابن عباس اور دوسرے افراد سے روایت نقل کی ھے کہ نبی کریم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: ”انا مدینة العلم و علیٌّ بابہا فمن اراد المدینة فلیات بابہا“ میں شہر علم ھوں علی اس کا دروازہ ، جو شہر میں آنا چاھے اس کو چاہیئے کہ در سے آئے۔[2]

دوسری جگہ فرمایا: ”انا دار الحکمة و علیٌّ بابہا“[3] میں دار حکمت ھوں اور علی اس کا دروازہ ۔

بعض احادیث میں رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے امت کی توجہات کو مبذول کرایا ھے حضرت علی کے اس علم کی جانب جو رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد مرجعیت عامہ کی اہلیت پر دلالت کرتا ھے، رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے دونوں کے درمیان واضح طور پر ربط کو بیان کیا ھے۔

سلمان کہتے ہیں کہ میں Ù†Û’ رسول(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) سے عرض کیا یا رسول اللہ! ہر نبی کا ایک وصی رہا Ú¾Û’ اور آپ کا وصی کون Ú¾Û’ØŸ آپ Ù†Û’ خموشی اختیار کرلی، پھر دوبارہ جب میری ملاقات ھوئی تو فرمایا: ”سلمان“ میں جلدی سے بڑھ کر Ø¢Ú¯Û’ گیا اور عرض Ú©ÛŒ: ”لبیک یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم)! “   

آپ نے فرمایا: جانتے ھو موسیٰ کا وصی کون تھا؟

میں نے کہا: ہاں، یوشع بن نون۔

آپ نے فرمایا: کیوں؟ میں نے کہا کہ وہ اپنی امت میں سب سے اعلم تھے۔

آپ نے فرمایا: میرے وصی میرے اسرار کا مرکز، میرے بعد سب سے عظیم ہستی، میرے وعدوں کو پورا کرنے والے میرے قرضوں کو ادا کرنے والے علی ابن ابی طالب (ع) ہیں۔[4]

بعض اصحاب کرام نے ان حقیقتوں کا اظہار بھی کیا ھے جو انھوںنے نبی کریم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے درک کیا تھا اور براہ راست جن حقائق کا مشاہدہ کیا تھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next