مرجعیت کے لئے حضرت علی (ع) کی اہلیت



یہ سارے واقعات اس بات کے غماز ہیں کہ علی (ع) کی ہی وہ ذات ھے جو میدان جنگ میں سب سے آگے آگے رہتی تھی اور انہی کی ذات اس بات کی لیاقت رکھتی ھے جو سخت و مشکل لمحات میں امت کی رہبری کرسکے، جس طرح طالوت نے اپنی امت کی قیادت بہترین نصرت کے ساتھ کی تھی، اور جالوت اوراس کے ھوا خواھوں کو سرزمین فلسطین سے کھدیڑ دیا تھا، اور صحرا میں بنی اسرائیل کی حیرانی و سرگردانی کا خاتمہ کر دیا تھا۔

اختلاف کے اسباب

ہمارا مقصد اس وقت حضرت علی(ع) کے فضائل بیان کرنا نہیں ھے بلکہ یہ تو اتنے ہیں جن کو شمار ہی نہیں کیا جاسکتا اوراس موضوع پر تو متعدد کتابیں لکھی جاچکی ہیں ہمارا اصل مقصد ان حقیقی دعووں کی وضاحت ھے جس میں رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے علی (ع) کی لیاقت و صلاحیت کا اعلان کیا ھے اور امت مسلمہ کی حیات میں رونما ھونے والے جنگی اور صلحی اہم موارد کا اظہار ھے اور یہ ساری باتیں چچازاد بھائی اوراہلبیت ھونے کی وجہ سے نہیں تھیں جیسا کہ اس کے بارے میں ہم پہلے ہی تفصیل سے ذکر کرچکے ہیں۔

رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا اصلی مقصد فرزندان توحید کی توجہات اس جانب مبذول کرانا تھی کہ علی اور اہلبیت رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان کے بعد مرجعیت اسلامی کی اہلبیت و لیاقت رکھتے ہیں، پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کلام کا لب لباب یہ تھا کہ امت مسلمہ اس بات کو تسلیم کرے جو اس بات کا سبب بنی کہ نظریاتی اختلاف ھو۔

 Ø§Ù† میں سے Ú©Ú†Ú¾ ایسے لوگ تھے جو ارادہ نبوت Ú©Û’ سامنے سر تسلیم خم کردیئے تھے کیوں کہ شریعت محمدی، وحیٴ سماوی کا پرتو علی تھی، Ú©Ú†Ú¾ وہ لوگ تھے جو یہ سونچ رھے تھے کہ رسول(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) اپنے چچازاد بھائی اور اہلبیت Ú©Û’ ساتھ مشفقانہ اور محبتانہ برتاؤ کر رھے تھے اسی Ú©Û’ سبب انھوں Ù†Û’ یہ خیال کرلیا کہ حق مشورت رکھتے ہیں بلکہ اعتراض کا بھی حق رکھتے ہیں، اس کا ثبوت بھی موجود Ú¾Û’ جو حسد Ú©Û’ سبب بعض لوگوں Ú©ÛŒ جانب سے معرض وجود میں آیا۔

ہماری یہ بات صرف ادعا کی حد تک اور بے بنیاد نہیں ھے، بلکہ متواتر روایات اس حقیقت پر گواہ ہیں بریدہ کی گذشتہ روایت آپ نے ملاحظہ فرمائی کہ خالید بن ولید نے بریدہ کو رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس اس لئے بھیجا تھا کہ علی کی شکایت کریں وہ اس موقع کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتا تھا، اسی لئے تو خالد نے بریدہ سے کہا تھاکہ وہ کنیز مال غنیمت کی تھی جو تصرف میں لائی گئی ھے۔

یہ بات اور واضح ھوجاتی ھے ان اصحاب کے اقوال سے جو بریدہ کو اکسا رھے تھے کہ رسول کے پاس جاکر شکایت کرو تاکہ علی رسول کی نظروں سے گر جائیں پھر رسول غیض و غضب کی صورت میں باہر آئے تھے اوراصحاب کو مخاطب کرکے فرمایا تھا : ”جس نے علی کو اذیت دی اس نے خود رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اذیت دی“

جابر بن عبداللہ سے روایت ھے کہ (یوم الطائف) طائف کے روز جب رسول اور علی کی سرگوشی طولانی ھوگئی تو لوگوں کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار نمایاں تھے، لوگوں نے (طنزاً) کہا کہ اس دن تو سرگوشی بہت طولانی ھوگئی۔

رسول نے فرمایا: میں نے علی سے (نجویٰ) سرگوشی نہیں کی ھے بلکہ اللہ نے ان سے نجویٰ کیا ھے۔[23]

زید بن ارقم راوی ہیں کہ مسجد نبوی میں بہت سارے اصحاب کے دروازے کھلتے تھے تو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: ”علی کے علاوہ سب کے دروازے بند کردو“۔

لوگوں نے چہ میگوئیاں شروع کردیں تو رسول کھڑے ھوئے اور حمد و ثنائے الٰہی کے بعد فرمایا: میں نے علی کے علاوہ سارے دروازوں کو بند کرنے کے لئے کہا تھا تو تم لوگوںنے اعتراض کیا ھے! خدا کی قسم نہ ہی میں نے کوئی چیز کھلوائی ھے اور نہ ہی بند کرائی ھے بلکہ مجھ کو کسی بات کا حکم دیا گیا تھا جس کو بجالایا ھوں۔[24]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next