مرجعیت کے لئے حضرت علی (ع) کی اہلیت



بعض لوگوں نے ابن عباس سے سوال کیا: کہ علی کون تھے تو ابن عباس نے کہا: رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قرابت داری کے ساتھ ساتھ علم، حکمت، شجاعت و شہامت آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ھوئی تھی۔[5]

عمروبن سعید بن عاص کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ سے پوچھا کہ، لوگ حضرت علی (ع) ہی کی کیوں گاتے ہیں یعنی کیوں لوگ انھیں کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں؟ انھوں نے کہا بھتیجے! علی، علم کے غیر مفتوح بلندی کا نام ھے جو چاھو حاصل کرسکتے ھو، وہ خاندان کا سخی ، اظہار اسلام میں پیش قدم، داماد رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ،سنت رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے آگاہ، میدان جنگ میں بے خوف لڑنے والا اور بخشش میں کریم ھے۔[6]

عبد الملک بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں Ù†Û’ عطاء سے کہا کہ اصحاب محمد(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) میں علی سے زیادہ کوئی جاننے والا تھا؟ تو انھوں Ù†Û’ کہا : ”لاواللہ لااعلم“  بخدا مجھے کسی کا علم نہیں۔[7]

خود امیر المومنین فرمایا کرتے تھے: مجھ سے کتاب خدا (قرآن) کے بارے میں پوچھو اس میں کوئی ایسی آیت نہیں جس کے نزول کے بارے میں مجھے علم نہ ھو کہ یہ آیت رات میں ا تری یا دن میں وادی میں آئی یا پہاڑ پر۔[8]ابن عباس سے روایت ھے کہ عمر نے کہا: ”اقضانا علیٌّ“ ہم میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی (ع) ہیں۔[9]

ابن مسعود کہتے ہیں کہ ہم آپس میں بات کیا کرتے تھے کہ اہل مدینہ میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ابن ابی طالب (ع) ہیں۔[10]

ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ھے جو رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اس قول ”علی میری امت کے بہترین قاضی ہیں“ کا گواہ نہ ھو۔[11]

یہ وہ روایات تھیں جو ا یک کثیر تعداد میں موجود ہیں لیکن ان کا کچھ حصہ پیش کیا ھے جو اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ حضرت علی(ع) میں شرط اعلمیت بدرجہٴ اتم پائی جاتی تھی جس طرح سے ان سے پہلے جناب طالوت میں پائی جاتی تھی، حد یہ ھے کہ دشمنوں نے بھی اس فضیلت کا اعتراف کیا ھے، جب حضرت امیر کی شہادت کی خبر معاویہ کو ملی تو اس نے کہا کہ: ذہب الفقہ والعلم بموت علیّ ابن ابی طالب[12] علی کی موت در حقیقت علم و فقہ کی موت ھے۔

امت کی شجاع ترین فرد علی(ع)

کوئی دو فرد بھی ایسی نہیں ھے جو علی (ع) کی شہامت اور دشمن کو دھول چٹا دینے کے سلسلہ میں اختلاف رائے رکھے، اور دوستوں سے پہلے دشمنوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ھے اور یہ بات تواتر و شہرت کی اس حد تک پہنچ گئی ھے کہ تاریخ کے عظیم افراد نے اس کو ذکر کیا ھے، آپ ہر میدان جنگ میں رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پرچم دار تھے۔[13]

حضرت علی(ع) اور جنگ بدر

جنگ بدر میں حضرت علی (ع) کا بہت بڑا امتحان تھا، تاریخ و سیرت نگاروں نے لکھا ھے کہ اس فیصلہ کن معرکہ میں مارے جانے والے بیشتر مشرکین آپ کے ہاتھوں قتل ھوئے۔[14]

حضرت علی (ع) اور جنگ احد

جنگ احد میں مسلمانوں کی جانب سے پرچمداروں کو قتل کیا گیا اور ان پرچمداروں کو قتل کرنے والے حضرت علی (ع) تھے جب حضرت علی ان کو قتل کرچکے تو نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مشرکین کے ایک جتھ کو دیکھا اور حضرت علی (ع) کو حکم دیا: ان پر حملہ کرو! آپ نے قتل کیا بقیہ تتربتر ھوگئے، اس کے بعد لشکر کا دوسرا ٹکڑا دکھائی دیا آپ نے ان پر حملہ کیا قتل کیا، بقیہ بھاگ کھڑے ھوئے، رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے دوسری ٹکڑی کو دیکھا اور جناب امیر سے کہا: ”ان پر حملہ کرو“ آپ نے ان پر حملہ کیا قتل کیا اور بھگادیا، جبرئیل نے کہا: یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یہ ھے (ایثار و فداکاری)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next