مرجعیت کے لئے حضرت علی (ع) کی اہلیت



آپ نے فرمایا: تو میری دوسری پیشکش یہ ھے کہ تو گھوڑے سے نیچے اتر آ۔

اس نے کہا: بھتیجے ایسا کیوں؟خدا کی قسم میں تم کو قتل کرنا نہیں چاہتا۔

تو امیر المومنین (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم میں تجھ کو قتل کرنا چاہتا ھوں۔

عمرو کا چہرہ سرخ ھوگیا وہ گھوڑے سے کود پڑا اور اس کو زخمی کردیا اور اس کے چہرے پر کوڑے سے مارا اس کے بعد حضرت علی (ع) کی جانب بڑھا، دونوں سپاہی پیدل حملوں کی ردو بدل کرنے لگے آپ نے اس کو قتل کردیا اور اس کے ساتھیوں کے گھوڑے ہنہناتے ھوئے سوار سمیت بھاگ کھڑے ھوئے۔[16]

سیوطی نے اپنی تفسیر در منثور میں اس آیت <وَ رَدَّ اللّٰہُ الَّذِینَ کَفَرُوا بِغَیظِہِم لَم یَنَالُوا خَیراً وَ کَفٰی اللّٰہُ المُوٴمِنِینَ القِتَالَ>[17]کے ضمن میں نقل کیا ھے اور ابن ابی حاتم نے ابن مُردویہ نیز ابن عساکر نے ابن مسعود سے نقل کیا ھے کہ وہ اس حرف کو ایسے پڑھتے تھے <وَ کَفیٰ اللّٰہُ المُوٴمِنِینَ القِتَالَ> بعلیّ بن ابی طالب۔

ذہبی نے بھی نقل کیا ھے کہ ابن مسعود یوں پڑھا کرتے تھے <وَ کَفیٰ اللّٰہُ المُوٴمِنِینَ القِتَالَ> بعلیّ۔[18]

عمروبن عبدود کی شہامت کے باعث مسلمان اس کے مقابل جانے سے کترا رھے تھے، خود رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بھی حضرت علی (ع) کا اس کے مقابل جانا پسند نہیں کر رھے تھے۔

ابوجعفر اسکافی نے اس واقعہ اور رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی کیفیت کی تفصیل ابن ابی الحدید معتزلی سے کچھ یوں نقل کی ھے جو اس نے تاریخ سے لیا ھے، ”رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) عمرو کے مقابل علی (ع) کے جانے سے احتراز کر رھے تھے آپ نے (حضرت علی (ع)) کی حفظ و سلامتی کی دعا کی ھے، جب حضرت علی (ع) روز خندق عمرو بن عبدود کے مقابل نکلے تو رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اصحاب کے جھرمٹ میں اپنے دست مبارک کو اٹھا کر یہ دعا فرمائی: ”اللّٰہم انک اٴخذت منی حمزة یوم احد و عبیدہ یوم بدر فاحفظ الیوم علیاً“ خدا یا! تو نے احد میں حمزہ کو اور بدر میں عبیدہ کو مجھ سے لے لیا لہٰذا آج کے دن علی کی حفاظت فرما، اور یہ کیفیت اس وقت طاری ھوئی جب عمرو بن عبدود نے مبارز طلب کیا تو سارے مسلمان خاموش تماشائی بنے تھے اور علی (ع) ہی آگے بڑھے تھے اور اذن جہاد طلب کیا تھا، خود رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس وقت فرمایا تھا: ”علی یہ عمرو ھے“ حضرت علی (ع) نے جواب دیا تھا: ”میں علی ھوں“

آپ نے علی کو قریب کیا اور آپ کے بوسے لئے اپنا عمامہ ان کے سر پر رکھا اور چند قدم آپ کے ساتھ وداع کرنے کے ارادے سے آئے، آپ پرشاق ھو رہا تھا اور آنے والے لمحات کا انتظار کر رھے تھے، آسمان کی جانب اپنے ہاتھ اور چہرے کو بلند کیئے (دعا کر رھے تھے) اور مسلمانوں میں سنّاٹا چھایا ھوا تھا گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔

جب غبار جنگ چھٹااور اس میں سے تکبیر کی آواز سنائی دی تو لوگوں نے جانا کہ علی (ع) کے ہاتھوں عمرو قتل ھوچکا ھے ،رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے صدائے تکبیر بلند کی اور مسلمانوں نے ایک آواز ھوکر رسول کا ساتھ دیا جس کی گونج خندق کے اس پار افواج مشرکین کے کانوں سے ٹکرائی۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next