مرجعیت کے لئے حضرت علی (ع) کی اہلیت



ابن عباس نے کہا: امیر کہیے کیا بات ھے اگر باطل ھے تو میری مثال اس شخص کی سی ھے جس نے اپنے آپ سے باطل کو جدا کردیا اوراگر حق ھے تو آپ کی نظروں سے گرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ھوتا۔

عمر نے کہا کہ میں نے سنا ھے کہ تم مستقل یہ کہتے پھر رھے ھو کہ یہ امر (خلافت) حسد اور ظلم کی بناء پر تم (بنی ہاشم) سے چھین لیا گیا ھے۔

ابن عباس نے کہا: اے امیر! آپ کا حسد کے متعلق کہنا تو درست ھے اس لئے ابلیس نے آدم (ع) سے حسد کیا تھا جس کی بناء پر وہ جنت سے نکال دیا گیا تھا لہٰذا ہم فرزندان آدم محسود (جس سے حسد کیا جاتا ھے) ہیں!

رہی آپ کی ظلم والی بات، تو امیر بہتر جانتے ہیں کہ اصلی حقدار کون ھے؟

اس کے بعد کہا کہ اے امیر! کیا عرب، عجم پر رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے سبب فخر نہیں کرتے؟ اور قریش سارے عرب پر رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بناء پر ناز نہیں کرتے اور ہم سارے قریش کے بنسبت رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے زیادہ قریب ہیں۔

عمر نے کہا: اٹھو اور یہاں سے اپنے گھر جاؤ۔

عبد اللہ اٹھے گھر کی طرف چل دیئے اور جب واپس ھوئے تو عمر نے آواز دی، ابن عباس! میں تیرے بنسبت زیادہ حقدار ھوں۔

عبد اللہ، عمر کی جانب مڑے اور کہا کہ اے امیر! ہم تم سے اور پوری امت مسلمہ سے زیادہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی وجہ سے حقدار ہیں جس نے اس کی حفاظت کی گویا اس نے اپنے حق کی حفاظت کی، جس نے اس کو ضائع کیا گویا اس نے اپنا حق ضائع کردیا۔[33]

اس سے بڑھ کر اس وقت قوم نے جس بات کو دلیل بنا کر حضرت علی (ع) سے خلافت کو جدا کردیا تھا وہ بات یہ تھی کہ حضرت علی (ع) نے اسلام کی عظیم جنگوں میں مشرکین کے سرداروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا جو اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ بظاہر ان کی گردنوں میں اسلام کا قلادہ پڑا تھا لیکن دلوں میں جنگوں کے کینے چھپائے ھوئے تھے اور عثمان بن عفان (خلیفہٴ ثالث) نے اس بات کی وضاحت بھی کی ھے۔

ابن عباس نے جیسا کہ روایت کی ھے کہ حضرت علی (ع) اور عثمان کے درمیان کچھ کلامی ردوبدل ھوئی تو عثمان نے کہا کہ ، قریش تم سے محبت نہیں کرتے تو یہ بات تعجب خیز نہیں ھے کیونکہ آپ نے جنگ بدر میں ان کے ستر آدمیوں کو قتل کیا ھے ان کے چہرے سونے کی بالیاں تھیں ان کو عزت ملنے سے پہلے ہی ان کی ناک رگڑ دی گئی۔[34]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next