گناهوں سے بچنے کا طریقه



(( ۔۔۔وَاللهُ لاَیُحِبُّ الظَّالِمِین))[40]

”۔۔۔اور خدا، ظلم کرنے والوں کوپسند نھیںکرتا“۔

گناھگار کو معلوم ھونا چاہئے کہ ایسے شخص سے خداوندعالم، انبیاء اور ائمہ علیھم السلام سخت نفرت کرتے ھیں اور اس سے ناراض رھتے ھیں چنانچہ حضرت عیسی اپنے حواریوں کو تہدید کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

”یا مَعْشَرَ الْحَوارِیّینَ ،تَحَبَّبُوا اِلَی اللّٰہِ بِبُغْضِ اَھل الْمَعاصی ،وَ تَقَرَّبُوا اِلَی اللّٰہِ بِالتَّباعُدِ مِنْھُمْ وَ الْتَمِسُوا رِضاہُ بِسَخَطِھِمْ:“[41]

”اے گروہ حوارین! گناھگاروں اور معصیت کاروں سے دشمنی اور ناراضگی کا اظھار کرکے خود کو خدا کا محبوب بناؤ، آلودہ لوگوں سے دوری اختیار کرتے ھوئے خدا سے نزدیک ھوجاؤ، اور گناھگاروں کے ساتھ غیض و غضب اورغصہ کا اظھار کرکے خداوندعالم کی خوشنودی حاصل کرلو“۔

گناھگار انسان کو اس بات پر متوجہ ھونا چاہئے کہ ھر گناہ کے انجام دینے سے خدا کے نزدیک انسان کی شخصیت اور کرامت کم ھوجاتی ھے یھاں تک کہ انسان حیوان کی منزل میں پہنچ جاتا ھے بلکہ اس سے بھی پست تر ھوتا چلا جاتا ھے، یھاں تک کہ ایسا شخص قیامت کے دن انسان کی صورت میں محشور نھیں ھوسکتا۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام براء بن عازب سے فرماتے ھیں: ”تم Ù†Û’ دین Ú©Ùˆ کیسا پایا؟ انھوں Ù†Û’ عرض کیا: مولا! آپ Ú©ÛŒ خدمت میں آنے اور آپ Ú©ÛŒ امامت Ùˆ ولایت کا اقرار کرنے نیز آپ Ú©ÛŒ اتباع اور پیروی سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ یھودیوں Ú©ÛŒ طرح تھا، ھمارے لئے عبادت Ùˆ بندگی ØŒ اطاعت Ùˆ خدمت بے اھمیت تھے۔ لیکن ھمارے دلوں میں ایمانی حقائق Ú©ÛŒ تجلی اور آپ Ú©ÛŒ اطاعت Ùˆ پیروی Ú©Û’ بعد عبادت Ùˆ بندگی Ú©ÛŒ قدر کا پتہ Ú†Ù„ گیا، اس وقت حضرت علی علیہ السلام Ù†Û’ فرمایا:  دوسرے لوگ قیامت Ú©Û’ دن گدھے Ú©Û’ برابر محشور Ú¾ÙˆÚº Ú¯Û’ØŒ اور تم میں سے ھر شخص روز محشر بہشت Ú©ÛŒ طرف جارھا Ú¾Ùˆ گا۔[42]

توبہ واجب اخلاقی ھے

علمائے کرام ،اھل عرفان حضرات اور پاک دل دانشوروں نے اخلاقی مسائل کے بارے میں بھت سی کتابیں لکھی ھیں، اور اخلاق کی دوحصوں میں شرح کی ھے: اخلاق حسنہ، اور اخلاق سیئہ (برا اخلاق) غرور وتکبر، اور خود غرضی کو برے اخلاق اور تواضع و انکساری کو اخلاق حسنہ میں مفصل طور پر بیان کیاھے۔

ابلیس کے لئے پیش آنے والی صورتحال کی بنا پر خداوندعالم کی طرف سے ھمیشہ کے لئے لعنت کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا گیااور اس کو اپنی کی بارگاہ سے نکال دیا ، کیونکہ اس نے حکم خداکے مقابلہ میں غرور و تکبر کیا تھا، لیکن دوسری طرف جناب آدم اور جناب حوّا کی توبہ قبول کر لی گئی، جس کی وجہ تواضع و انکساری تھی، قرآن نے واضح کردیا کہ چونکہ غرور و تکبر خدا کی بارگاہ سے نکال دئے جانے کا سبب ھے لہٰذا اس سے دوری اختیار کرنا واجب ھے اور تواضع و انکساری انسان کو خدا سے نزدیک کردیتا ھے اور اس کو عبادت و بندگی سے رغبت میں مدد ملتی ھے ، نیز انسان اپنے گناھوں اور خطاؤں کے لئے خدا سے عذر خواھی کرتا ھے اور توبہ و استغفار کرتا ھے لہٰذا انسان پر واجب ھے کہ خودکو تواضع و انکساری سے آراستہ کرے، اور اس کی عظمت کے سامنے سرتسلیم خم کردے، خشوع و خضوع اورآنسو بھری آنکھوں کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ھو اور اس سے یہ عہد کرے کہ آئندہ گناھوں سے پرھیز کرے گا نیز اپنے گزشتہ کی تلافی کرے گا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 next