قول و فعل میں یکسانیت اورزبان پر کنٹرول



” اِلٰھِی مَنْ ذَا الَّذِی ذَاقَ حَلاَوَةَ مَحَبَّتکَ فَرَامَ مِنْکَ بَدَلا“

 

اے میرے پروردگار ! کون ہے جو تیر ی محبت کا مزہ چکھ لے پھر کسی اور کا انتخاب کرے ؟

 

اگر کوئی محبت میں اس حد تک نہ پہنچا ہو کہ خداوند عالم اور معصومین علیہم السلام کا عشق اسے گناہوں سے روکے تو اسے گناہ کے عواقب اور انجام سے ڈرانا چاہیے اس کے سامنے عذاب جہنم سے دوچار ہونے ، سعادت و بہشت سے محروم ہونے اور گناہ کے دیگر دنیوی و اخروی برے اثرات کو پیش کرے ۔ جو چیز انسان کو کسی کام کو انجام دینے یا کسی کام کو ترک کرنے پر مجبور کرتی ہے وہ ” خوف و رجاء “ ہے یعنی یہ امید کہ اسے کوئی فائدہ پہونچے یا کسی نقصان سے نجات ملے ،پس انسان کی ہدایت کیلئے بہترین اور نزدیک ترین راستہ ، دنیا و آخرت میں گناہ کے برے اثرات کی طرف اس کی توجہ مبذول کرانا ہے ۔

 

اب اگر کسی کا ایمان آخرت کے بارے میں ضعیف ہو ، تو اسے گناہ سے بچانے کیلئے بہترین راہ یہ ہے کہ اسے گناہ کے دنیوی انجام سے آگاہ کیا جائے یہ وہی روش ہے جس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حدیث کے اس حصہ میں اختیار کیا ہے ۔

 

چونکہ بعض لوگ آخرت کو دور دیکھتے ہیں جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے آخرت نزدیک اور دست رس میں ہے ،چنانچہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next