شیعوں کے آغاز کی کیفیت



اگر چہ علی(علیہ السلام) نے پیغمبر کی وفات کے بعد سیاسی اقتدارحاصل نھیں کیالیکن آپ کے فضائل ومناقب کویھی اصحا ب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان کرتے ھیں، ابن حجر ھیثمی جو اھل سنت کے متعصب عالموں میں سے ھیں انھوںنے حدیث غدیر کے راویوں کی تعداد تیس افراد بتائی ھے۔[96]

لیکن ابن شھر آشوب نے حدیث غدیر کے اصحاب میں راویوں کی تعداد اسی(۸۰) بیان کی ھے۔[97]

لیکن علامہ امینی نے حدیث غدیر کے راویوں کی تعداد جو صحابہ سے نقل ھوئی ھے ایک سو دس ذکر کی ھے کہ جس کی تفصیل یوں ھے: ۔[98]

ابو ھریرہ، ابو لیلیٰ انصاری، ابو زینب انصاری، ابو فضالہ انصاری، ابو قدامہ انصاری، ابو عمرہ بن عمرو بن محصن انصاری، ابوالھیثم بن تیّھان، ابو رافع، ابو ذوٴیب، ابوبکر بن ابی قحافہ، اسامہ بن زید،ا بی بن کعب، اسعد بن زراہٴ انصاری، اسماء بنت عمیس،ام سلمہ، ام ھانی، ابو حمزہ انس بن مالک انصاری، براء بن عازب، بریدہ اسلمی، ابوسعید ثابت بن ودیعہ انصاری، جابر بن سمیرہ، جابر بن عبداللہ انصاری، جبلہ بن عمرو انصاری، جبیر بن مطعم قرشی، جریر بن عبداللہ بجلی، ابوذر جندب بن جنادہ، ابو جنیدہ انصاری، حبہ بن جوین عرنی، حبشی بن جنادہ سلولی، حبیب بن بدیل بن ورقاء خزاعی، حذیفہ بن اسید غفاری، ا بو ایوب خالد زید انصاری، خالد بن ولید مخزومی، خزیمہ بن ثابت، ابو شریح خویلد بن عمرو خزاعی، رفاعہ بن عبد المنذر انصاری، زبیر بن عوام، زید بن ارقم، زید بن ثابت، زید بن یزید انصاری، زید بن عبداللہ انصاری، سعد بن ابی وقاص، سعد بن جنادہ،سلمہ بن عمرو بن اکوع، سمرہ بن جندب، سھل بن حنیف، سھل بن سعد انصاری، صدی بن عجلان، ضمیرة الاسدی، طلحہ بن عبیداللہ ، عامر بن عمیر، عامر بن لیلیٰ، عامر بن لیلیٰ غفاری،عامر بن واثلہ،عائشہ بنت ابی بکر، عباس بن عبدالمطلب، عبد الرحمن بن عبدربہ انصاری،عبد الرحمن بن عوف قرشی، عبدالرحمن بن یعمر الدیلی، عبداللہ بن ابی عبد الاثر مخزومی، عبداللہ بن بدیل، عبداللہ بن بشیر، عبداللہ بن ثابت انصاری،عبداللہ بن ربیعہ، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن ابی عوف، عبداللہ بن عمر،عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن یامیل، عثمان بن عفان، عبید بن عازب انصاری، ابو طریف عدی بن حاتم، عطیہ بن بسر، عقبہ بن عامر، علی بن ا بی طالب(علیہ السلام)، عمار بن یاسر، عمارہ الخزرجی، عمر بن عاص، عمر بن مرہ جھنی، فاطمہ بن رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فاطمہ بنت حمزہ، عمربن ابی سلمہ، عمران بن حصین خزاعی، عمر و بن حمق خزاعی، عمر و بن شراحیل، قیس بن ثابت انصاری، قیس بن سعد انصاری، کعب بن عجرہ انصاری، مالک بن حویرث لیثی،مقداد بن عمرو، ناجیہ بن عمرو خزاعی، ابو برزہ فضلہ بن عتبہ اسلمی، نعمان بن عجلان انصاری، ھاشم مرقال، وحشی بن حرب، وھب بن حمزہ، ابو جحیفہ، وھب بن عبداللہ و یعلی بن مرہ۔[99]

حدیث غدیر Ú©Û’ راویوں Ú©Û’ درمیان وہ لوگ جو علی(علیہ السلام) سے دشمنی رکھتے تھے جیسے ابوبکر،عمر،عثمان،طلحہ،عبدالرحمن بن عوف،زیدبن ثابت،اسامہ بن زید،حسان بن ثابت،خالد بن ولید،اور عائشہ کا نام لیا جاسکتا Ú¾Û’ حتیٰ کہ یھی صحابہ جوحضرت علی(علیہ السلام) Ú©Û’ موافق بھی نھیں تھے لیکن اس Ú©Û’ باوجودکبھی آپ Ú©ÛŒ طرف سے آپ Ú©Û’ دشمن Ú©Û’ مقابلے میں دفاع بھی کرتے تھے جیسے سعد بن وقاص، یہ ان Ú†Ú¾ لوگوں میں سے تھے جو عمر Ú©Û’ مرنے Ú©Û’ بعد انتخاب خلافت Ú©Û’ لئے Ú†Ú¾ رکنی کمیٹی بنی تھی اورانھوں Ù†Û’ علی(علیہ السلام) Ú©Û’ مقابلے میں عثمان Ú©Ùˆ ووٹ دیا نیز خلافت Ú©Û’ مسئلہ میں حضرت علی(علیہ السلام) Ú©ÛŒ طرفداری اور حمایت بھی نھیں Ú©ÛŒ اور بے طرفی اختیار کی، وہ باتیں جو ان Ú©Û’ اور معاویہ Ú©Û’ درمیان ھوئیں تو انھوں Ù†Û’ معاویہ سے کھا: تونے اس شخص سے جنگ Ùˆ جدال کیا Ú¾Û’ جو خلافت میں تجھ سے زیادہ سزاوار تھا، معاویہ Ù†Û’ کھا: وہ کیسے؟ اس Ù†Û’ جواب دیا: میرے پاس دلیل یہ Ú¾Û’ کہ ایک تو رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Ù†Û’ علی(علیہ السلام) Ú©Û’ بارے میں فرمایا جس کا میں مولاھوں اس Ú©Û’ علی(علیہ السلام) مولاھیں بارالھاٰ  علی(علیہ السلام) Ú©Û’ دوستوں Ú©Ùˆ دوست اورعلی(علیہ السلام) Ú©Û’ دشمنوں Ú©Ùˆ دشمن رکھ اوردوسرے ان Ú©Û’ فضل Ùˆ سابقہ Ú©ÛŒ وجہ سے[100]

اسی طرح عمرو عاص کا بیٹا عبداللہ جنگ صفین میں اپنے باپ کے ساتھ معاویہ کی طرف تھا، جب عماۺرقتل ھوگئے اور ان کے سر کو معاویہ کے پاس لایا گیا تو دو شخص آپس میں جھگڑنے لگے ھر ایک یہ دعویٰ کرنے لگا کہ عمارۺ کو اس نے قتل کیا ھے عبداللہ نے کھا: بھتر یہ ھے کہ تم میں سے ایک اپنا حق دوسرے کو بخش دے اس لئے کہ میں نے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلام سے سنا ھے کہ آپ نے فرمایا: عمار کو ایک ظالم گروہ قتل کرے گا معاویہ نا راض ھوا اور اس نے کھا:

 ØªÙˆ یھاں پر کیا کر رھا Ú¾Û’ عبداللہ Ù†Û’ کھا: کیونکہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Ù†Û’ مجھ Ú©Ùˆ باپ Ú©ÛŒ اطاعت کا Ø­Ú©Ù… دیا Ú¾Û’ اس لئے میں تمھارے ساتھ Ú¾ÙˆÚº لیکن جنگ نھیں کروں گا۔[101]

جناب عمارۺ کا امیرالمومنین(علیہ السلام) کی رکاب میں موجود ھونا کہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلام نے عمارۺ کے قاتلوں کو ایک ستم گار گروہ بتایا ھے اس پر آشوب دور میں یہ علی(علیہ السلام) کی حقانیت کی بھترین گواھی تھی جس کا عمرو عاص کے بیٹے نے بھی اعتراف کیا۔

سقیفہ کی تشکیل میں قریش کاکردار

علی(علیہ السلام) کی جانشینی کے بارے میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام کوششوں اور واقعہ غدیرکے باوجودسقیفہ کا اجتماع واقع ھوا خدا کافرمان زمین میں دھرارہ گیا اور رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خانوادہ خانہ نشین ھو گیا، اس سلسلہ میں ضروری ھے کہ قریش کے کردارکی نشاندھی کی جائے اس لئے کہ قریش ھی چاھتے تھے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عترت کا حق غصب کریں، حضرت علی(علیہ السلام) نے مختلف مقامات پر قریش کے مظالم اور خلافت حاصل کرنے کی کوشش کو بیان کیا ھے۔[102]

اس طرح اپنے بھائی عقیل کے خط کے جواب میں فرماتے ھیں: قریش سخت گمراھی میں ھیں، ان کی دشمنی اور نا فرمانی معلوم ھے انھیں سر گردانی میں ھی چھوڑ دو اس لئے کہ انھوں نے مجھ سے جنگ ٹھان لی ھے جس طرح رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ پر تلے ھوئے تھے مجھ کو سزا دینے سے پھلے، (باقی حاشیہ اگلے پر)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 next