شیعوں کے آغاز کی کیفیت



<۴>حضرت علی(علیہ السلام) کا سکوت:

اب یہ دیکھناچاھیے کہ حضرت علی(علیہ السلام) Ù†Û’ سقیفہ اور ابوبکر Ú©ÛŒ حکومت Ú©Û’ آغا ز Ú©Û’ بعد کیوں  اپنے حق سے صرف نظر کیا ØŸ چند ماہ Ú©Û’ استدلال اور احتجاجات Ú©Û’ بے اثر ھونے کا یقین کر لینے Ú©Û’ بعد حکومت Ú©Û’ خلاف مسلحانہ جنگ کیوں  نھیں کی؟ جب کہ بعض بزرگ اصحاب پیغمبر(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) آپ Ú©Û’ واقعی طرفداروں میں تھے اور عمومی طور سے مسلمان بھی آپ سے مخالفت نھیں رکھتے تھے، بہ طورکلی کھا جا سکتا Ú¾Û’ کہ امیرالمومنین(علیہ السلام) Ù†Û’ اسلام اور مسلمانوں Ú©ÛŒ مصلحت Ú©Ùˆ مد نظر رکھا اور سکوت اختیار کیا جیساکہ خطبہ شقشقیہ میں آپ Ù†Û’ فرمایا:

”میں نے خلافت کی قباکو چھوڑ دیا اور اپنے دامن کو اس سے دور کر لیا حالانکہ میں اس فکر میں تھا کہ آیا تنھا بغیر کسی یاورومدد گار کے ان پر حملہ کردو ںیا اس دم گھٹنے والی تنگ و تاریک فضا میں جوان کی کار ستانیوں کانتیجہ تھی اس پر صبر کروںایسی فضاجس نے بوڑھوں کو فرسودہ بنادیا تھا، جوانوں کو بوڑھا اور با ایمان لوگوں کو زندگی کے آخری دم تک کے لئے رنجیدہ کردیا تھامیں نے انجام پر نگاہ کی تو دیکھا کہ بردباری اور حالات پر صبر کرنا ھی عقل و خرد سے زیادہ نزدیک ھے اسی وجہ سے میں نے صبر کیا لیکن میں اس شخص کی طرح رھا کہ جس کی آنکھ میں کانٹا اور گلے میں کھردری ہڈی پھنسی ھوئی ھو میں اپنی میراث کو اپنی آنکھ سے لٹتے ھوئے دیکھ رھا تھا۔ [130]

<۱>مسلمانوں کے درمیان تفرقہ

امیرالمومنین(علیہ السلام) فرماتے ھیں : جب خدا نے اپنے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی روح قبض کی قریش نے اپنے کو ھم پر مقدم کیا اور ھم(جو امت کی قیادت کے لئے سب سے زیادہ سزاوار تھے)کو ھمارے حق سے بازر کھا لیکن میں نے دیکھا کہ اس کام میں صبر و برد باری کرنا مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور ان کے خون بھنے سے بھتر ھے کیونکہ لوگ نئے نئے مسلمان ھوئے تھے دین کی مثال بالکل دودھ سے بھری ھوئی اس مشک کی سی تھی کہ جس میں جھاگ بھر گیا ھوکہ جس میں ذرا سی غفلت اور سستی اسے نابود کر دے گی اور تھوڑا سا بھی اختلاف اسے پلٹ دے گا۔[131]

<۲>مرتد ھونے کا خطرہ

پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) Ú©ÛŒ وفات Ú©Û’ بعد، عرب قبائل Ú©ÛŒ بڑ ÛŒ تعداد کہ جنھوںنے پیغمبراسلام(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) Ú©ÛŒ آخری زندگی میں اسلام قبول کیا تھا وہ دین سے پلٹ گئے اور مرتد ھوگئے تھے کہ جس Ú©ÛŒ وجہ سے، مدینہ Ú©Û’ لئے خطرہ بھت بڑھ گیا تھا ان Ú©Û’ مقابلہ میں مدینہ Ú©ÛŒ حکومت کمزورنہ Ú¾Ùˆ Ù†Û’ پائے اس لئے حضرت علی(علیہ السلام) Ù†Û’ سکوت اختیار کیا حضرت علی(علیہ السلام) Ù†Û’ فرمایا: خدا Ú©ÛŒ قسم  میں Ù†Û’ یہ کبھی نھیں سوچا اور نہ میرے Ø°Ú¾Ù† میں کبھی یہ بات آئی کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Ú©Û’ بعدعرب منصب امامت اور رھبری Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ اھل بیت(علیہ السلام) سے چھین لیں Ú¯Û’ اور خلافت Ú©Ùˆ مجھ سے دور کر دیں Ú¯Û’ تنھا وہ چیز کہ جس Ù†Û’ مجھے نا راض کیا وہ لوگوں کا فلاں(ابو بکر) Ú©Û’ اطراف میں جمع ھوجانا اور اس Ú©ÛŒ بیعت کرنا تھا میں Ù†Û’ اپناھاتھ کھینچ لیامیں Ù†Û’ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ Ú©Ú†Ú¾ گروہ اسلام سے پھر گئے ھیں اور چاھتے ھیں کہ دین محمد(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) کونابودکردیں، میں Ù†Û’ ا س بات کا خوف محسوس کیا کہ اگر اسلام اور اس Ú©Û’ اھل Ú©ÛŒ مددد نہ کروںنیز اسلام میں شگاف اور اس Ú©Û’ نابود ھونے پر شاھد رھوں تو میرے لئے اس Ú©ÛŒ مصیبت حکومت اور خلافت سے محروم ھونے سے زیادہ بڑی تھی کیونکہ دنیا کا فائدہ چند روزہ Ú¾Û’ جو جلدھی ختم ھوجائے گا جس طرح سراب تمام ھوجاتا Ú¾Û’ یا بادل Ú†Ú¾Ù¹ جاتے ھیں پس میں Ù†Û’ اس چیز Ú©Ùˆ چاھا کہ باطل ھمارے درمیان سے چلا جائے اور دین اپنی جگہ باقی رھے۔[132]

امام حسن(علیہ السلام) نے بھی معاویہ کو خط میں لکھا: میں نے منافقوں اور عرب کے تمام گروہ کہ جو اسلام کو نقصان پھنچانا چاھتے تھے ان کی وجہ سے اپنے حق سے چشم پوشی کی[133] حتیٰ کہ ان لوگوں میں کچھ ایسے تھے جن کے لئے قرآن نے شھادت دی ھے: ان کے قلوب میں ایمان داخل ھی نھیں ھوا تھا اور انھوں نے زبردستی اسلا م قبول کیا تھا اور اپنے نفاق کی وجہ سے علی(علیہ السلام) کی ولایت کے منکر تھے حتیٰ کہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں بھی اس مطلب پر اعتراض کرتے تھے

طبرسی نے آیہٴ”سئل سائل بعذاب واقع“ کی تفسیر میں حضرت امام صادق(علیہ السلام) سے نقل کیا ھے: غدیر خم کے واقعہ کے بعد نعمان بن حارث فھری پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کھنے لگا: آپ کے حکم کے مطابق ھم نے خداکی وحدانیت اور آ پ کی رسالت کی گواھی دی اورآپ نے جھاد، روزہ، حج، زکوٰ ة، نماز کا حکم دیا ھم نے قبول کیا ان تمام باتوں پر آپ راضی اور خوش نھیں ھوئے اور کہہ رھے ھیں کہ جس کامیں مولا ھوں اس کے علی(علیہ السلام) مولا ھیں، کیا یہ آپ کی طرف سے ھے یا خداکی جانب سے؟ تو رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا نے فرمایا: اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی خدا نھیں ھے یہ حکم خدا کی طرف سے ھے، نعمان بن حارث وھاں سے یہ کھتا ھوا واپس ھوا کہ اگر یہ مطلب حق ھے تو آسمان سے میرے اوپر پتھر نازل فرما، اسی وقت آسمان سے اس کے اوپر پتھر نازل ھو ا اور وہ وھیں پر ھلاک ھوگیا اس وقت یہ آیت نازل ھوئی۔[134]

سقیفہ میں بھی یہ لوگ قریش کے حامی اورطرف دار تھے جیسا کہ ابو مخنف نے نقل کیا ھے کہ کچھ صحرائی عرب مدینہ کے اطراف میں کار وبار کے لئے آئے ھوئے تھے اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے دن مدینہ میں موجود تھے ان لوگوں نے ابو بکر کی بیعت کرنے میں ھم کردار ادا کیا تھا۔[135]

<۳> عترت پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حفاظت

پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصلی وارث اور دین کے سچے حامی نیز خیر خواہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاندان والے تھے یہ لوگ قرآن کے ھم پلہ اورھم رتبھنیز پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوسری عظیم یاد گارنیز قرآن وشریعت کی تفسیر کرنے والے تھے انھوں نے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اسلام کا صحیح چھرہ لوگوں کے سامنے پیش کیاتھا ان لوگوں کا قتل ھوجانا ناقابل تلافی نقصان تھا امیرالموٴمنین(علیہ السلام) فرماتے ھیں : میں نے سوچا اور فکر کی کہ اس وقت اھل بیت(علیہ السلام) کے علاوہ کوئی میرا مدد گار نھیں ھے میں راضی نھیں تھا کہ یہ لوگ قتل کر دئےے جائیں۔[136]

سقیفہ کے بعد شیعوں کے سیاسی حالات



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 next