شیعوں کے آغاز کی کیفیت



سلمان، مقداد،ابوذر، عمار،اور ان چار افراد Ú©Û’ بعد ابولیلیٰ، شبیر، ابو عمرة انصاری ابو سنان انصاری، اور ان چار افراد Ú©Û’ بعدجابر بن عبداللہ انصاری، ابو سعید انصاری جن کا نام سعد بن مالک خزرجی تھا،ابو ایوب انصاری خزرجی، ابی بن کعب انصاری ابوبرزہ اسلمی خزاعی جن کا نام نضلہ بن عبیداللہ  تھا،زید بن ارقم انصاری بریدہ بن حصیب اسلمی، عبدالرحمن بن قیس جن کا لقب سفینہ راکب اسد تھا،عبداللہ بن سلام، عباس بن عبد المطلب(علیہ السلام)ØŒ عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن جعفر، مغیرہ بن نوفل بن حارث بن عبد المطلب(علیہ السلام)ØŒ حذیفة الیمان جو انصار میں شمار کئے جاتے تھے، اسامہ بن زید، انس بن مالک ابو الحمراء،براء بن عا زب انصاری اور عرفہ ازدی۔[151]

بعض شیعہ علماء رجال عقیدہ رکھتے ھیں کہ شیعہ صحابہ کی تعداد اس سے زیادہ تھی جیسا کہ شیخ مفید ۺ نے وہ تمام اصحاب جنھوں نے مدینہ میں حضرت کے ھاتھوں پر بیعت کی خصوصاًوہ اصحاب جو جنگوں میں حضرت کے ساتھ تھے انھیں شیعیان و معتقدین امامت حضرت علی(علیہ السلام) میں سے جاناھے جنگ جمل میں اصحاب میں سے پندرہ سو افراد حاضر تھے۔[152]

رجال کشی میں آیا ھے: شروع کے اصحاب جو حق کی طرف آئے اور حضرت علی(علیہ السلام) کی امامت کے قائل ھوئے وہ یہ ھیں : ابو الھیثم بن تیھان،ابو ایوب،خزیمہ بن ثابت،جابر بن عبداللہ، زید بن ارقم، ابو سعید،سھل بن حنیف،برا ء بن مالک،عثمان بن حنیف،عبادہ بن صامت،ان کے بعد قیس بن سعد، عدی بن حاتم،عمرو بن حمق،عمران بن حصین،بریدہ اسلمی، اور بھت سے دوسرے جن کو” بشرٌ کثیرةٌ“سے تعبیر کیا ھے۔[153]

مرحوم میر داماد تعلیقہ رجال کشی میں بشر کثیر کی وضاحت و شرح میں کھتے ھیں کہ صحابہ میں سے بھت سے بزرگان اور تابعین کے چنندہ افراد ھیں ۔[154]

سید علی خان شیرازی نے کھا ھے کہ اصحاب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیشتر تعداد امیرالمومنین کی امامت کی طرف واپس آگئی تھی کہ جس کا شمار کرنا ھمارے لئے ممکن نھیں ھے اور اخبار نقل کرنے والوں کا اس بات پر اتفاق ھے کہ اکثر صحابہ جنگوں میں حضرت علی(علیہ السلام) کے ساتھ تھے۔[155]

محمد بن ابی بکر نے معاویہ کو خط لکھا کہ جس میں علی(علیہ السلام) کی حقانیت کی طرف اشارہ اس بات سے کیا ھے کہ اکثر اصحاب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت علی(علیہ السلام) کے ارد گرد جمع ھیں۔[156]

محمدبن ابی حذیفہ جو حضرت علی(علیہ السلام) کے وفادارساتھی تھے اور معاویہ کے ماموں کے بیٹے تھے حضرت علی(علیہ السلام) سے دوستی کی بنا پرمدتوں معاویہ کے زندان میں زندگی بسر کی اور آخر کار وھیں دنیا سے رخصت ھوگئے، معاویہ سے مخاطب ھوکر کھا: جس روز سے میں تجھ کو پھچانتا ھوں چاھے وہ جاھلیت کا دور ھو یا اسلام کا تجھ میں کوئی تبدیلی نھیں آئی ھے اور اسلام نام کی کوئی چیز تیرے اندر نھیں پائی جاتی، اس کی علامت یہ ھے کہ تو مجھے علی(علیہ السلام) سے محبت کی بناپر ملامت کرتا ھے حالانکہ تمام زاھد و عابد، مھاجر وانصار علی(علیہ السلام) کے ساتھ ھیں اور تیرے ساتھ آزاد کردہ غلام اور منافقین ھیں۔[157]

البتہ جو لوگ امیرالمومنین(علیہ السلام) کی فوج میں تھے ان سب کا شمار آپ کے شیعوں میں نھیں ھوتا تھا لیکن چونکہ آپ قانونی خلیفہ تھے اس لئے آپ کا ساتھ دیتے تھے اگر چہ یہ بات تمام لوگوں کے بارے میں کھی جاسکتی ھے سوائے ان صحابیوں کے جو علی(علیہ السلام) کے ساتھ تھے اس لئے کہ وہ اصحاب جو حضرت امیر(علیہ السلام) کے ساتھ تھے کہ جن سے وہ اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لئے مدد لیتے تھے ان کے بارے میں یہ کھنا درست نھیں ھے جیسا کہ سلیم ابن قیس نقل کرتا ھے: امیرالمومنین(علیہ السلام) صفین میں منبر پر تشریف لے گئے اور مھاجر و انصار کے سبھی افراد جو لشکر میں تھے منبرکے نیچے جمع ھوگئے حضر ت نے اللہ کی حمدوثناء کی اور اس کے بعد فرمایا: اے لوگو میرے فضائل و مناقب بے شمار ھیں میں صرف اس پر اکتفا کرتا ھوں کہ جب رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا سے اس آیت کے بارے میں ”السابقون السابقون اولئک المقربون “ پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: خدا نے ا س آیت کو انبیا و اوصیا کی شان میں نازل کیا ھے اور میں تمام انبیا و پیغمبروں سے افضل ھوں اور میرا وصی علی(علیہ السلام) ابن ابی طالب تمام اوصیاء سے افضل ھے اس موقع پر بدر کے ستّر اصحاب جن میں اکثر انصار تھے کھڑے ھو گئے اور گواھی دی کہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا سے ھم نے ایساھی سنا ھے۔[158]

 



[1] اس شعر کی طرح:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 next