جغرافیائی اعتبار سے تشیع کی وسعت



 Ø­Ø¬Ù‘اج Ú©Û’ زمانے میں شیعیت عراق Ùˆ حجاز Ú©ÛŒ سرحدوں سے عبور کر Ú©Û’ تمام علاقے میں پھیل گئی،اسی دور میں شیعہ حجّاج Ú©ÛŒ طرف سے سختی اور فشار Ú©ÛŒ بنا پر عراق سے Ù†Ú©Ù„ کر منتشرھوگئے اور دوسری اسلامی سرزمینوں میں ساکن ھوگئے، خاص کر اسلامی شرق جیسے ایران کہ جھاں Ù¾Ú¾Ù„ÛŒ صدی Ú©Û’ ختم ھونے Ú©Û’ ساتھ ساتھ شیعہ مرکز قائم Ú¾Ùˆ گیا، خراسان میں عباسیوں Ù†Û’ ان سے خاندان پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نسبت Ú©ÛŒ وجہ سے استفادہ کیا اور ”الرّضا من آل محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “کے نعرہ Ú©Û’ ساتھ اپنے ارد گرد جمع کر لیا اور امویوں Ú©Û’ خلاف جنگ میں ان سے فائدہ اُٹھایا۔

عباسیوں کے دور میں تشیع کی وسعت میں معتدبہ اضافہ ھوا شیعہ مشرق میں یران، ھندوستان، قفقازوغیرہ کی طرف ھجرت کرگئے اوردولت اموی کے خاتمہ پرغرب یعنی یورپ کی سمت(مراقش)میں بھی شیعوں کا نفوذ ھو گیا،خصوصاً افریقہ میں دوسری صدی میں ادریسیوں کی شیعہ حکومت قائم ھوگئی اگر چہ یہ حکومت زیدیوں کی تھی لیکن شیعیت کے پھیلنے کا پیش خیمہ تھی البتہ اس کا ارتباط مصر میں اغلبیوں کی حکومت کی وجہ سے کہ جو اس کے مقابلہ میں قائم ھوئی تھی مرکز یعنی مدینہ میں بھت کم اثر تھا۔[8]

 Ø§Ø³ طرح دوسری صدی ھجری میں مذھب تشیع، جھانِ اسلام Ú©Û’ شرق وغرب میں پھیل گیا اس Ú©Û’ علاوہ خوزستان جبل مرکزی ایران نیز مشرق وسطی Ú©Û’ دور دراز علاقے، افغانستان، آذر بائیجان، مراقش ھندوستان اور طبرستان تک پھیل گیا۔ [9]

شیعہ اجتماعی مراکز

جیسا کہ اشارہ ھو چکا ھے پھلی تین صدی ھجری میں شیعہ اسلامی سر زمین کے کافی علاقوں میں زندگی بسرکرتے تھے اور تمام جگہ منتشرھو گئے تھے لیکن شیعوں کی بھاری اکثریت اورعظیم اجتماع چند ھی مناطق میں تھا پھلی صدی ھجری میں شیعہ اجتماعی مراکز یہ تھے: مدینہ یمن،کوفہ، بصرہ، مدائن، جبل عامل، دوسری صدی میں ان مراکز کے علاوہ قم، خراسان، طبرستان، بغداد،جبل عامل، افریقہ وغیرہ میں بھی شیعہ مراکز قائم ھو گئے تھے، اب ھم یھاں ان جگھوں کی وضاحت کریں گے۔

<الف >پھلی صدی ھجری میں شیعہ نشین علاقے

پھلی صدی ھجری میں شیعہ نشین علاقے زیادہ تر حجاز ویمن وعراق کی حد تک محدود تھے، ان علاقے میں رھنے والے افراد عرب تھے اور پھلے دور کے مسلمانوں میں ن کاشمار ھوتا تھا، حجاز ویمن میں تشیع کی بنیاد رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے دور میں پڑ چکی تھی، پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی وفات کے بعد عراق کا اضافہ ھوا جو یمنی قبائل کا محل زندگی قرار پایا اورحضرت علی علیہ السّلام کے دور حکومت میں وھاں کے تشیع کی وسعت میں مزید اضافہ ھوا۔[10]

مدینہ: ھجرت سے پھلے مدینہ کا نام یثرب تھا یھاں یمن کے دو قبیلے آباد تھے جنھیں اوس و خزرج کھا جاتا تھا جنھیں بعد میں انصار کھا گیا اور تین یھودی قبیلے بنام بنی قینقاع، بنی نضیراور بنی قریظہ یھاں آبادتھے، جب رسالت مآب نے ھجرت فرمائی تو اس شھر کا نام مدینة النبی یعنی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شھر پڑ گیا، کثرت استعمال اور تکرار کی وجہ سے نبی حذف ھو گیا،اور صرف مدینہ مشھور ھو گیا تینوں خلفاکا مرکز حکومت مدینہ رھا، اھل بیت(علیہ السلام) کے سر سخت دشمن قریش یھیں رھتے تھے اس کے باوجود مدینہ کی بیشتر آبادی انصار سے مربوط تھی جو اھل بیت(علیہ السلام) کے محب تھے اور سیاسی کشمکش کے وقت اھل بیت(علیہ السلام) کا ساتھ دیتے تھے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھت سے جلیل القدر صحابی یھاں رھتے تھے اور لوگوں کو حقیقت حال سے آگاہ کرتے تھے، چنانچہ آپ کے عظیم صحابی جناب جابربن عبداللہ انصاریۻ اپنے عصا کا سھارا لے کر مدینہ کی گلیوں میں گھومتے اور اعلان کرتے:

<علی ٌ خیرُ البَشَرِ مَن انکَرَھٰا فَقَدْ کَفَر>

 ÛŒØ¹Ù†ÛŒ حضرت علی(علیہ السلام) بھترین مخلوق ھیں جس Ù†Û’ انکار کیا وہ کافر Ú¾Ùˆ گیا۔

اے انصار تم اپنے بچوں کو علی(علیہ السلام) کی محبت کا عادی بناؤ اور جو بھی علی(علیہ السلام) کی محبت قبول نہ کرے اس کے نطفہ کے بارے میں اس کی ماں سے پوچھو [11]

یھی جابر مسجد النبی کے دروازے پر بیٹھ جاتے تھے اور آواز دیتے تھے:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next