جغرافیائی اعتبار سے تشیع کی وسعت



اب ھم ان شھر اور علاقوں کے حالات کی تحقیق کریں گے جھاں دوسری صدی ھجری میں شیعہ کثیر تعداد میں زندگی بسر کررھے تھے۔

خراسا ن: دوسری صدی کے شروع ھو نے کے ساتھ ساتھ بنی ھاشم کے مبلغین کی تحریک اور کوشش سے خراسان کے اکثرلوگ شیعہ ھوگئے۔[74]

یعقوبی نقل کرتا ھے: زید کی شھادت کے بعد خراسان کے شیعہ جوش و خروش میں آگئے اور اپنے شیعہ ھونے کابرملہ اظھار کرنے لگے نیزمبلغوں اور خطیبوں نے بنی امیہ کی جانب سے خاندان پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ھونے والے مظالم کا کھلم کھلا اعلان کرنا شروع کردیا۔[75]

یحییٰ بن زید خراسا ن چلے گئے اور اور چند دنوں تک مخفی زندگی گزاری جس وقت خروج کیا کافی لوگ ان کے اردگر دجمع ھو گئے، [76]

مسعودی کے نقل کے مطابق جس سال یحيٰ کا قتل ھوا اس سال جوبچہ بھی خراسان میں پیدا ھوا اس کا نا م یحيٰ رکھا گیا۔[77]

البتہ خراسان کے شیعوں پر زیدیوں اور عباسیوں کے مبلغین کے سبب زیدیت اور کیسانیت کارنگ چڑھا ھو اتھاخاص کر عباسیوں نے اپنی خلافت کے آغاز میں محمد حنفیہ کے بیٹے محمد بن علی ابو ھاشم کی جانشینی کا اعلان کیا، جیسا کہ ابو الفرج اصفھانی نے عبداللہ بن محمد حنفیہ کے حالات کے ذیل میں لکھا ھے: یہ وھی ھیں جن کے بارے میں خراسان کے لوگوں کا گمان تھا کہ ان کے والد امام تھے اور یہ ان کے وارث ھیں اور ان کے وارث محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس ھیں اور محمد بن علی نے ابراھیم کو اپنا وصی بنایا ھے اس طرح سے عباسیوں میں جانشینی استوار ھوئی، [78]خراسانی مسلسل عباسیوں کے طرفدار تھے علویوں اور عباسیوں کے درمیان ھونے والے نزاع کے دوران عباسیوں کی طرفداری کرتے تھے چنانچہ محمد نفس زکیہ کے ساتھ جنگ میں اکثر عباسی سپاھی خراسانی تھے اور فارسی میں گفتگو کرتے تھے، ابوالفرج اصفھا نی نقل کرتے ھیں: جس وقت محمد نفس زکیہ کے سرداروں میں سے ایک سردار بنام خضیر زبیری مدینہ سے فوجی چھاؤنی کی طرف آرھا تھاخراسانی فارسی میں کہہ رھے تھے- -:

خضیرآمدخضیر آمد۔[79]

قم: دوسری صدی ھجری کے بعد قم اھم ترین شیعہ نشین شھرشمار ھوتا تھا اور اس شھرکی بنیاد نہ صرف یہ کہ اسلامی ھے بلکہ شیعوں کے ھاتھوں سے رکھی گئی ھے اور اس میں شروع سے ھی شیعہ آباد تھے اور ھمیشہ شیعہ اثنا عشری رھے کہ جو کبھی راستہ سے منحرف نھیں ھوئے، نہ صرف یہ کہ سنیوں نے اس شھر میں کبھی سکونت نھیں کی بلکہ غالیوں کے لئے بھی یھاں آنا ممکن نھیں ھوا اور اگرکبھی اس شھر میں آبھی جاتے تھے تو قم کے لوگ ان کو بھگادیتے تھے۔[80]

یھاں کے بھت سے لوگوں نے ائمہ اطھار(علیہ السلام) کی خدمت میں حاضری دی ھے اور ان بزرگوں سے کسب فیض کیا ھے اور مسلسل ائمہ(علیہ السلام) سے رابطہ میں رھے ھیں ۸۲ ھ میں ابن اشعث کی شورش حجاج کے مقابلہ میں ناکام ھوگئی اور وہ کابل کی جانب فرار کر گیا، [81]ا س کی فوج میں بعض شیعہ بھی موجود تھے، منجملہ عبداللہ، احوص،نعیم، عبدالرحمٰن اوراسحاق، سعد بن مالک بن عامر اشعری جو ابن اشعث کی شکست کے بعد قم کی طرف آگئے، وھاں سات گاوٴں تھے ان میں ایک گاوٴں کا نام کمندان تھا یہ سارے بھائی اس گاوٴں میں ساکن ھو گئے اور ان کے رشتہ داراور رفقا ان سے ملحق ھوتے گئے اور رفتہ رفتہ یہ تمام دھات آپس میں مل گئے اور سات محلوں کی طرح ھو گئے ان سب کو کمندان کھا جانے لگا آھستہ آھستہ آگے کے حروف کم ھوتے گئے اورترخیم ھوکر عربی میں قم ھو گیا۔ [82]

اس کے بعد قم شیعوں کا ایک اھم مرکز ھو گیا اور شیعہ خصوصاًعلوی ھر جگہ سے یھاں آئے اور قم میں ساکن ھوگئے، [83]دوسری صدی ھجری کے آخر میں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی تشریف آوری سے اس شھر کی تاریخی عظمت بڑھ گئی اور معصومہ(س)کے آنے کی برکت سے اس شھر کی اھمیت میں مزید اضافہ ھوگیا۔

بغداد: دوسری صدی ھجری ۱۴۵ ھ میں خلیفہ عباسی کے دوسرے خلیفہ منصور کے ذریعہ اس شھر کی بنا رکھی گئی اور بھت جلدی شیعوں کا مرکز ھو گیا، [84]اس چیز کو امام کاظم(علیہ السلام) کی تشییع جنازہ میں پوری طرح ملاحظہ کیا جاسکتا ھے،شیعوں کے ازدھام اور جم غفیر کی بناپر عباسی خوف زدہ ھو گئے، سلیمان بن منصور، ھارون کا چچا لوگوں کے غصہ کو کم کرنے کے لئے پا برھنہ تشییع جنازہ میں شریک ھوا۔[85]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next