جغرافیائی اعتبار سے تشیع کی وسعت



اے باقر العلوم  آپ کھاں ھیں ØŸ بھت سے لوگ کھتے تھے جابر ہذیان بک رھے ھیں، جابر کھتے تھے میں ہذیان نھیں بک رھا Ú¾ÙˆÚº بلکہ میں Ù†Û’ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا Ú¾Û’ آپ فرماتے تھے: میرے بعد میری نسل سے ایک بچے Ú©ÛŒ زیارت کرو Ú¯Û’ جس کا نام میرا نام ھوگا وہ مجھ سے مشابہ ھوگا وہ لوگوں Ú©Û’ سامنے علم Ú©Û’ دروازے کھولے گا۔[12]

جناب جابر ۻنے جب امام پنجم کی زیارت کی تو اپنا معمول بنا لیا تھاکہ ھر روز دو بار آنحضرت کی زیارت سے مشرف ھوں۔[13]

حضرت ابوذر غفاریۻ مسجد نبی کے دروازہ پر کھڑے ھو کر کھتے تھے: جو مجھے پھچانتا ھے وہ پھچانتاھے اور جو مجھے نھیں پھچانتا وہ پھچان لے میں ابو ذرغفاری جند ب بن جنادہ ھو ں، محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) علم آدم(علیہ السلام) اور تمام انبیا(علیہ السلام) ء کے فضائل کے وارث ھیں اور علی(علیہ السلام) ابن ابی طالب(علیہ السلام) محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصی اور ان کے وارث ھیں۔[14]

اکثر بنی ھاشم اسی شھر میں زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے جد کے حرم کا احترام کرتے تھے، اس کے علاوہ ائمہ معصومین(علیہ السلام) بھی اس شھر میں ساکن تھے لہذا یھاں کے لوگ ان کی تعلیمات سے بھرمندھوتے تھے، خاص طور پر امام باقر(علیہ السلام) اور امام صادق(علیہ السلام) کے زمانے میں ان کے حلقہٴ درس نے لوگوں کو مسجد نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب کھینچ لیا تھا۔

ابو حمزہ ثمالی کا بیان ھے: میں مسجد نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بےٹھا ھوا تھا میرے نزدیک ایک شخص آیا اور سلام کیا اور امام محمدباقر(علیہ السلام) کے متعلق پو چھا میں نے دریافت کیا کہ کیا کام ھے؟ اس نے جواب دیا: میں نے چالیس مسئلہ آمادہ کئے ھیں تاکہ امام محمدباقر(علیہ السلام) سے سوال کروں اس کی بات ابھی تمام بھی نہ ھونے پائی تھی کہ امام محمدباقر(علیہ السلام) مسجد میں داخل ھوئے، کچھ اھل خراسان نے ان کو گھیر رکھا تھا اور مناسک حج کے بارے میں حضرت(علیہ السلام) سے سوالات کررھے تھے۔[15]

ان دو بزرگوار کے بعض شاگرد جیسے ابان بن تغلب بھی مسجد نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں درس دیتے تھے، ابان جس وقت مسجد میں داخل ھوتے تھے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی جگہ بےٹھتے تھے اور لوگ ان کے اردگرد جمع ھو جاتے تھے، ابان ان کے لئے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بیان کرتے تھے،امام صادق(علیہ السلام) ان سے فرماتے تھے: آپ مسجد نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بےٹھ کر فتو یٰ دیا کیجئے میں چاھتا ھو ں کہ میرے شیعوں کے درمیان آپ جیسے افرادظاھر ھوں۔[16]

یمن: عراق کی فتح اور کوفہ کی بناء سے پھلے شیعہ یمن میں زندگی بسر کرتے تھے یمن مدینہ کے بعد دوسرا علاقہ تھا جھاں پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی وفات کے بعد شیعیان علی(علیہ السلام) موجود تھے،اس لئے کہ وھا ں کے لوگ سب سے پھلی مرتبہ حضرت علی(علیہ السلام) کے ذریعے مسلما ن ھوئے تھے، ابن شھر آشوب لکھتا ھے: رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکرم نے خالدبن ولید کو یمن کی جانب روانہ کیا تاکہ ان کو اسلام کی دعوت دے، براء بن عازب بھی خالد کی فوج میں موجود تھا خالد وھاں چھ مھینے رھا لیکن کسی کو مسلمان نہ کر سکا، رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا اس بات سے بھت ناراض ھوئے اور خالد کو بر طرف کر کے اس کی جگہ امیرالمو منین علی(علیہ السلام) کو بھیجا،حضرت(علیہ السلام) جس وقت وھاں پھنچے، نماز صبح بجالائے اور یمن کے لوگوں کو پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط پڑھ کر سنایا،قبیلہ حمدان کے تمام لوگ ایک ھی دن میں مسلمان ھو گئے اورحمدان کے بعد یمن کے تمام قبائل نے اسلام قبول کر لیا، رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)خدا اس خبر کو سننے کے بعد سجدئہ شکر بجا لائے۔[17]

 ÛŒÙ…Ù† میں جس جگہ سب سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ حضرت علی(علیہ السلام) Ù†Û’ سکونت اختیار Ú©ÛŒ وہ ایک خاتون بنام امّ سعدبر زخیہ کا گھر تھا، حضرت علی(علیہ السلام) Ù†Û’ وھاں قرآن Ú©ÛŒ تعلیم دینا شروع کی، بعد میں یہ گھر مسجد Ú¾Ùˆ گیا اور اس کا نام مسجد علی(علیہ السلام) رکھ دیا گیا، خاص طور پر پیغمبر(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) Ú©ÛŒ آخری عمر میں یمن Ú©Û’ مختلف قبائل Ù†Û’ مدینہ میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دیدار کیا اور درمیان میں ھونے والی گفتگومیں حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Ù†Û’ حضرت علی(علیہ السلام) Ú©ÛŒ وصایت اور جانشینی Ú©Ùˆ بیان کیا،[18]اس بنا پر ان Ú©Û’ Ø°Ú¾Ù† میں یہ مطلب موجود تھا۔[19]

پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی وفا ت کے بعد انھوں نے مدینہ کی حکومت کو رسمیت نھیں دی اور خلیفہ وقت ابو بکر کو زکوٰة دینے سے انکار کیا جیسا کہ ان کے اشعار میں آیا ھے:

اطعنارسول اللّہ ما دام وسطنا



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next