جغرافیائی اعتبار سے تشیع کی وسعت



اسی طرح آل نھیک جیسے شیعوں کے بڑے خاندان کوفہ میں رھتے تھے، عبداللہ بن محمد اور عبدالرّحمن سمری انھیں میں سے ھیں ۔[50]

کوفہ کی مساجد بالخصوص وھاں کی جامع مسجد میں ائمہ طاھرین(علیہ السلام) کی احادیث کی تدریس ھوتی تھی، امام رضا علیہ السلام کے صحابی حسن بن علی وشّا کھتے ھیں: کوفہ کی مسجد میں میں نے نوسو افراد دیکھے کہ وہ سب امام صادق(علیہ السلام) سے حدیث نقل کر رھے تھے۔[51]

بصرہ: بصرہ وہ شھر ھے کہ جس کی مسلمانوں نے کوفہ کے ساتھ ھی۱۷ھ

میں بنیاد رکھی، [52] اگر چہ بصرہ کے لوگ عائشہ،طلحہ وزبیر کی حمایت کی وجہ سے عثمانی حوالے سے شھرت رکھتے تھے جس زمانے میں جمل کی فوج بصرہ میں مقیم تھی شیعیان امیرالمومنین(علیہ السلام) بھی وھاں زندگی بسر کرتے تھے اور امیرمومنین(علیہ السلام) کے بصرہ پھنچنے سے پھلے ان کے شیعوں نے دشمنوں سے جنگ بھی کی کہ جس میں کافی تعداد میں لوگ شھید ھوئے جیسا کہ شیخ مفید نے نقل کیا ھے کہ فقط عبدالقیس قبیلہ سے پانچ سو شیعہ افراد شھید ھوئے۔[53]

بلاذری کے نقل کے مطابق ربیعہ قبیلہ کے تین ہزار شیعہ محل ذی قار میں حضرت(علیہ السلام) سے ملحق ھوئے۔[54]

 Ø¬Ù†Ú¯ جمل Ú©Û’ بعد بصرہ میں عثمانی رجحان بڑھنے Ú©Û’ باوجود کافی تعداد میں شیعہ وھاں زندگی بسر کر تے تھے، اسی وجہ سے جب معاویہ Ù†Û’ ابن حضرمی Ú©Ùˆ فتنہ ایجاد کرنے Ú©Û’ لئے وھاں بھیجا تو اس کواس بات Ú©ÛŒ تاکید Ú©ÛŒ کہ بصرہ میں رھنے والے Ú©Ú†Ú¾ لوگ شیعہ ھیں بعض قبائل جیسے ربیعہ سے ھوشیار رھنے Ú©ÛŒ تلقین کی، بھر حال عثمانی خیال وھاں پر زیادہ تھے اور اگرحضرت علی علیہ السّلام کوفہ سے فوج نھیں بھیجتے تو ابن حضرمی Ú©ÛŒ فتنہ پردازیوں سے بصرہ عثمانیوں Ú©Û’ ذریعہ ان Ú©Û’ کنٹرول سے Ù†Ú©Ù„ جاتا۔[55]

واقعہ کربلا کے وقت بھی امام حسین(علیہ السلام) نے بصرہ کے چند بزرگوں کو خط لکھا ان میں سے یزید بن مسعود نھشلی نے امام(علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کیا اور لبیک کھا اورکچھ قبائل بنی تمیم، بنی سعد، اور بنی حنظلہ کو جمع کرکے ان کو امام حسین(علیہ السلام) کی مدد کے لئے دعوت دی، اس وقت ان قبیلوں نےاپنی آمادگی کا خط امام(علیہ السلام) کو لکھا، لیکن جب امام حسین(علیہ السلام) سے ملحق ھونے کے لئے آمادہ ھوئے توان کو حضرت(علیہ السلام) کی خبر شھادت ملی۔[56]

مسعودی کے نقل کے مطابق توابین کے قیام میں بھی بصرہ کے کچھ شیعہ مدائن کے شیعوں کے ساتھ فوج میں ملحق ھوئے لیکن جس وقت وھاں پھنچے جنگ تمام ھو چکی تھی۔ [57]

بنی امیہ کے دور میں بصرہ کے شیعہ زیاد اور سمرہ بن جندب جیسے ظالموں کے ظلم کا شکار تھے، زیاد ۴۵ھ میں بصرہ آیا اور خطبہ بتراء پڑھا، [58]کیونکہ زیاد نے اس خُطبہ کو بغیر نام خدا کے شروع کیا اس لئے اس کو بتراء کھا جانے لگا اس نے اس طرح کھا: خدا کی قسم میں غلام کوآقا، حاضر کو مسافر، تندرست کو بیمار کے گناہ کی سزادوں گا یھاں تک کہ تم ایک دوسرے کا منھ دیکھو گے اور کھو گے سعد خود کو بچاؤ کہ سعید تباہ ھو گیا،آگاہ ھو جاؤ اس کے بعد اگر کوئی بھی رات میں باھر نکلا تو میں اس کا خون بھادوں گا اپنے ھاتھوں اور زبان کو بند رکھنا تاکہ میرے ھاتھ اور زبان سے امان میں رھو،[59]بعد میں کوفہ بھی زیادکے کنٹرول میں آگیا، زیاد چھ ماہ کوفہ میں رھتاتھا اور چھ ماہ بصرہ میں جس وقت کوفہ جاتا تھا سمرة بن جندب کو بصرہ میں اپنی جگہ معین کر دیتا تھا، سمرہ ایک ظالم شخص تھا جو خون بھانے میں ذرہ برابر بھی اعتنانھیں کرتا تھا اس نے زیاد کی غیر موجود گی میں آٹھ ہزار افراد کو قتل کیا [60]وقت کے ساتھ ساتھ بصرہ میں شیعیت بڑھتی گئی یھاں تک کہ حکومت عباسی کے آغاز میں دوسرا علوی قیام جو محمد نفس زکیہ کے بھائی ابراھیم کانے کیا بصرہ میں واقع ھوا۔[61]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next