شیعی تاریخ میں تحول وتغیر



 Ø§Ø¨Ø§Ù† Ù¾Ú¾Ù„Û’ شخص ھیں جنھوں Ù†Û’ علوم قرآن Ú©Û’ بارے میں کتاب تالیف Ú©ÛŒ Ú¾Û’ اور علم حدیث میں بھی انھیں اس قدر مھارت حاصل تھی کہ آپ مسجد نبوی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تشریف فرما ھوتے اور لوگ ا آکر آپ سے طرح طرح Ú©Û’ سوالات کرتے تھے اور مختلف جھت سے ان Ú©Û’ جوابات دیتے تھے مزید احادیث اھل بیت(علیہ السلام) کوبھی ان Ú©Û’ درمیان بیان کرتے تھے، [92]

 Ø°Ú¾Ø¨ÛŒ میزان الاعتدال میں ان Ú©Û’ بارے میں لکھتے ھیں: ابان Ú©Û’ مثل افراد جو تشیع سے متھم ھیں اگر ان Ú©ÛŒ حدیث رد Ú¾Ùˆ جائے تو کافی آثار نبوی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ختم Ú¾Ùˆ جائیں Ú¯Û’Û”[93]

 Ø§Ø¨Ùˆ خالد کابلی کا بیان Ú¾Û’: ابو جعفر مومن طاق Ú©Ùˆ مسجد نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بےٹھے ھوئے دیکھا مدینہ Ú©Û’ لوگوں Ù†Û’ ان Ú©Û’ اطراف میں ھجوم کر رکھا تھا، لوگ ان سے سوال کر رھے تھے، اور وہ جواب دے رھے تھے۔[94]

شیعیت اس دور میں اس قدر پھیلی کہ بعض لوگوں نے اپنی اجتماعی حیثیت کے چکر میں اپنی طرف سےحدیث جعل کرنا شروع کردیا اور احادیثِ ائمہ طاھرین(علیہ السلام) کی بیجاتاویل کرنے لگے نیز اپنے نفع میں روایات ائمہ(علیہ السلام) کی تفسیر کر نے لگے، جیسا کہ امام صادق(علیہ السلام) نے اپنے صحابی فیض ابن مختار سے اختلاف احادیث کے بارے میں فرمایا: وہ ھم سے حدیث اور اظھار محبت میں رضائے خُدا طلب نھیں کرتے بلکہ دنیا کے طالب ھیں اور ھر ایک اپنی ریاست کے چکر میں لگا ھوا ھے۔[95]

شیعہ عبّاسیو ں کے دور میں

شیعیت ۱۳۲ ھ یعنی عباسیوں کے آغازسے غیبت صُغریٰ کے آخر یعنی ۳۲۱ ھ تک امویوں کے دور کی بہ نسبت زیادہ پھیلی، شیعہ دور و دراز کے علاقہ میں منتشر اوربکھرے ھوئے تھے جیسا کہ ھارون کے پاس امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شکایت کی جاتی تھی کہ دنیا کے مشرق ومغرب سے آپ کے پاس خُمس آتا ھے، [96]جس وقت امام رضا(علیہ السلام) نیشا پورآئے دو حافظان حدیث جن میں ابو زرعہ رازی اور محمد بن مسلم طوسی اور بے شمارطالبان علم حضرت(علیہ السلام) کے ارد گرد جمع ھو گئے اور امام(علیہ السلام) سے خواھش ظاھرکی کہ اپنے چھرئہ انور کی زیارت کرائیں اس کے بعد مختلف طبقات کے لوگ جو ننگے پاؤں کھڑے ھوئے تھے ان کی آنکھیں حضرت(علیہ السلام) کے جمال سے روشن ھوگئیں، حضرت(علیہ السلام) نے حدیث سلسلة الذھب ارشاد فرمائی بیس ہزار کاتب اور صاحبان قلم نے اس حدیث کو لکھا۔[97]

اسی طرح امام رضا(علیہ السلام) نے ولی عھدی قبول کر نے کے بعد مامون سے کہ جو حضرت(علیہ السلام) سے بھت کچھ توقع رکھتاتھا،اس کے جواب میں فرمایا: اس ولی عھد ی نے میری نعمتو ں میں کوئی اضافہ نھیں کیا ھے جب میں مدینہ میں تھا تو میرالکھا ھوا شرق وغرب میں اجرا دھوتا تھا۔[98]

اسی طرح ابن داوٴد جو فقھائے اھل سنّت میں سے تھا اور شیعوں کا سرسخت مخالف اور دشمن تھا اس کا اعتراف کر نا بھی اھمیت کا حامل ھے اس سے پھلے کہ معتصم عباسی چور کے ھاتھ کاٹنے کے بارے میں امام جواد(علیہ السلام) کی رائے کو فقھا ئے اھل سنت کے مقابلہ میں قبول کرے، ابن داوٴد تنھائی میں اس کومشورہ دیتا ھے کہ کیوں اس شخص کی بات کو کہ آدھی امت جس کی امامت کی قائل ھے درباریوں، وزیروں، کاتبوں اور تمام علما ئے مجلس کے سامنے ترجیح دیتے ھیں، [99]یھاں تک کہ شیعیت حکومت بنی عباس کے فرمان رواؤں اور حکومت کے لوگوں کے درمیان بھی پھیل گئی تھی جیسا کہ یحییٰ بن ھر ثمہ نقل کرتا ھے۔

 Ø¹Ø¨Ø§Ø³ÛŒ خلیفہ متوکل Ù†Û’ مجھے امام ھادی(علیہ السلام) Ú©Ùˆ بلانے Ú©Û’ لئے مدینہ بھیجا جس وقت میں حضرت(علیہ السلام) Ú©Ùˆ Ù„Û’ کر اسحاق بن ابراھیم طاھری Ú©Û’ پاس بغداد پھنچا جو اس وقت بغداد کا حاکم تھاتو اس Ù†Û’ مجھ سے کھا: اے یحییٰ  یہ شخص رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خُدا کا فرزند Ú¾Û’ØŒ تم متوکل Ú©Ùˆ بھی پھچانتے Ú¾Ùˆ اگر تم Ù†Û’ متوکل Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ قتل Ú©Û’ لئے بر انگیختہ کیا تو گویا تم نےرسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خُدا سے دشمنی کی، میں Ù†Û’ کھا: میں Ù†Û’ اس سے نیکی Ú©Û’ علاوہ Ú©Ú†Ú¾ نھیں دیکھا، اسکے بعد میں سامرہ Ú©ÛŒ طرف روانہ Ú¾Ùˆ ا جس وقت میں وھاں پھونچا سب سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ وصیف ترکی Ú©Û’ پاس گیا اس Ù†Û’ بھی مجھ سے کھا،[100] اگر اس شخص Ú©Û’ سر کا ایک بال بھی Ú©Ù… Ú¾Ùˆ گیا تو تم میرے مقابلہ میں Ú¾ÙˆÛ”[101]

سیّدمحسن امین نے اپنی کتاب کی پھلی جلد میں عباسی حکومت کے چند افراد کو شیعوں میں شمار کیا ھے منجملہ ان میں سے ابو سلمہ خلال ھیں [102] کہ جو خلافت عباسی کے پھلے وزیر تھے اور وزیر آل محمد(علیہ السلام) کے لقب سے مشھور تھے، ابو بجیر اسدی بصری منصور کے زمانے میں بزرگ فرمان رواؤں میں محسوب ھوتے تھے، محمد بن اشعث ھارون رشیدکے وزیر تھے اور امام کاظم(علیہ السلام) کی گرفتاری کے وقت اسی شخص سے منسوب داستان ھے جو اس کے شیعہ ھونے پردلالت کرتی ھے، علی بن یقطین ھارون کے وزیروں میں سے تھے،اسی طرح یعقوب بن داوٴد مھدی عباسی کے وزیر اور طاھر بن حسین خزاعی مامون کے دور میں خراسان کے حاکم اور بغداد کے فاتح تھے، اسی وجہ سے حسن بن سھل نے ان کو ابی السرایا کی جنگ میں نھیں بھیجا۔ [103]

اسی طرح بنی عباس کے دور میں من جملھ شیعہ قاضیوں کی فھرست یوں ھے: شریک بن عبداللہ نخعی کوفہ کے قاضی اور واقدی مشھور مورّخ جو مامون کے دور میں قاضی تھے، [104]یھاں تک کہ تشیع ان مناطق میں کہ جھاں پر عباسیوں کارسوخ و نفوذ تھا اس قدر پھیل گئی تھی کہ ان کو بڑا خطرہ لا حق ھونے لگاتھا جیسا کہ امام کاظم(علیہ السلام) کی تشییع جنازہ کے موقع پر سلیمان بن منصورکہ جوھارون کا، چچا تھا اس نے شیعوں کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے جوکافی تعداد میں جمع تھے آپ کے جنازہ میں پا برھنہ شرکت کی۔ [105]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 next