شیعی تاریخ میں تحول وتغیر



حجاج بن یوسف جو بنی امیہ کا انتھائی درجہ سفاک و بے رحم عامل تھا مکہ و مدینہ میں لوگوں کو بنی امیہ کا مطیع بنانے کے بعد ۷۵ھجری میں خلیفہ اموی عبدالملک بن مروان کی جانب سے عراق کی حکومت پر مامور ھوا جو شیعوں کا مرکز تھا، حجاج چھرہ کو چھپائے ھوئے مسجد کوفہ میں داخل ھوا صفوں کو چیرتا ھوا منبر پر بیٹھ گیا کافی دیر تک خاموش بیٹھا رھا لوگوںمیں چہ می گوئیاں ھونے لگیں کہ یہ کون ھے؟ ایک نے کھا: نیا حاکم ھے دوسرے نے کھا اس پرپتھر مارے جائیں کچھ نے کھا: نھیں صبر سے کام لیا جائے دیکھتے ھیں کہ یہ کیا کھتا ھے؟ جب سب لوگ خاموش ھو گئے تواس نے اپنے چھرہ سے نقاب ھٹائی اور چند جملوں کے ذریعہ سے ایسا ڈرایا کہ جس کے ھاتھ میں مارنے کے لئے پتھر تھے ھاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گئے اس نے اپنے خطبہ کی ابتدا اس طرح کی:

”اے کوفہ والو  برسوں سے آشوب Ùˆ فتنہ برپا Ú¾Û’ تم Ù†Û’ نا فر مانی Ú©Ùˆ اپنا شعار بنا لیا Ú¾Û’ میں ایسے سروں Ú©Ùˆ دیکھ رھا Ú¾ÙˆÚº جو پھلوں Ú©ÛŒ طرح بالکل تیار ھیں انھیں جسمو ںسے جدا کر دینا چاہئےے، میں اتنے سروں Ú©Ùˆ قلم کروں گا کہ تم فرمانبرداری کا راستہ یاد کرلو گے“۔[24]

حجاج نے پورے عراق میں اپنی حکومت قائم کی اور کوفہ کے نیک اور بے گناہ بھت سے لوگوں کا قتل کیا۔

مسعودی حجاج کے مظالم کے بارے میں لکھتا ھے:

حجاج کی بیس سال کی حکومت میں جو لوگ اس کی شمشیر کے ذریعہ شکنجوں میں رہ کر جاں بحق ھوئے ھیں ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ھے، اس کے علاوہ کچھ وہ افراد ھیں جو حجاج کے ساتھ جنگ میں اس کی فوج کے ھاتھوں قتل کئے گئے حجاج کی موت کے وقت اس کے مشھور زندان میں پچاس ہزار مرد اورتیس ہزار عورتیں قیدتھیں، ان میں سولہ ہزار عریاں اور بے لباس تھے حجاج مرد اور عورتوں کو ایک جگہ قید کرتا تھا، اس کے تمام زندان بغیر چھت کے تھے اس وجہ سے زندان میں رھنے والے گرمی اور سردی سے امان میں نھیں تھے۔[25]

حجاج معمولاً شیعوں کو زندانی اور شکنجہ کرتا تھا اور انھیں قتل کرتا تھا شیعوں کی دردناک وضعیت کا پتہ اس سے لگا یاجاسکتا ھے جس کو انھوں نے اپنے اوپر ھونے والے ظلم و ستم کو اموی دور میں امام سجاد(علیہ السلام) سے بیان کیا ھے، مرحوم علامہ مجلسیۺنے نقل کیاھے: کچھ شیعیان علی(علیہ السلام) امام زین العابدین(علیہ السلام) کے پاس آ ئے اورمصیبتوں پر آہ و گریہ کیا نیز اپنے درد ناک حالات کو بیان کیا: فرزند رسول، ھم کو ھمارے شھر سے نکال دیا گیا قتل و غارت کے ذریعہ ھم کو نابودکردیا گیا امیرالمومنین(علیہ السلام) پر شھروں میں مسجد نبوی میں منبروںسے سب و شتم کیا گیالیکن کوئی مانع نھیں ھوا، اور اگرھم میں سے کسی نے اعتراض کیا تو کھتے تھے کہ یہ ترابی ھے جب اس کا علم حاکم کو ھوتا تھاتو اس شخص کے بارے میں حاکم کے پاس لکھ بھیجتے تھے کہ اس نے ابوتراب کی تعریف کی ھے وہ حکم دیتا تھا کہ اس کو زندان میں ڈال دیا جائے اور قتل کردیا جائے۔[26]

اموی دور میں تشیع کی وسعت

اموی خلفا کے دور میں شیعوں پر ظلم و ستم ھونے کے باوجود تشیع کی ترویج و فروغ میں کوئی کمی نھیں آئی پیغمبر و خاندان پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مظلومیت لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف کھینچتی رھی اور نئے نئے لوگ شیعہ ھوتے گئے، یہ مطلب اموی حکومت کے آخری زمانہ میں پورے طور سے دیکھا جا سکتا ھے اموی زمانہ میں تشیع کے پھیلنے کے کئی مراحل تھے ھر مرحلہ کی ایک خصوصیت تھی کلی طور پر شیعوں کی کثرت کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ھے۔

<الف>۴۰ھ سے ۶۱ھ تک،دوران امام حسن(علیہ السلام) اور امام حسین(علیہ السلام) ۔

<ب>۶۱ھ سے۱۱۰ ھ تک، دورا ن امام سجاد و امام باقر علیھما السلام۔

<ج>۱۱۰ ھ سے ۱۳۲ھ یعنی اموی حکومت کے اختتام تک، دوران امام صادق(علیہ السلام)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 next