شیعی تاریخ میں تحول وتغیر



اسی طرح جس وقت امام جواد(علیہ السلام) شھید ھوئے وہ چاھتے تھے کہ ان کو مخفی طور پر دفن کردیں لیکن شیعہ باخبر ھو گئے اور بارہ ہزار افراد مسلح ھوکرھاتھوں میں تلوار لئے گھروں سے باھر آگئے اور عزت و احترام کے ساتھ حضرت(علیہ السلام) کے جنازہ کی تشییع کی[106] امام ھادی(علیہ السلام) کی شھادت کے موقع پر بھی شیعوں کی کثرت کی بنا پر اور بھت کافی گریہ و بکا کی وجہ سے مجبور ھوئے کہ حضرت(علیہ السلام) کو ان کے گھر میں دفن کردیں۔[107]

 Ø§Ù…ام رضاعلیہ السلام Ú©Û’ دور Ú©Û’ بعدعباسی خُلفا Ù†Û’ فیصلہ کیا کہ ائمہ طاھرین(علیہ السلام) Ú©Û’ ساتھ اچھی رفتار سے پیش آئیں تاکہ شیعوں Ú©Û’ غصّہ کا سبب نہ بنیں،اسی بنا پرمام رضا(علیہ السلام) Ú©Ùˆ ھارون Ú©Û’ دور میں نسبتاً آزادی حاصل تھی اور آپ Ù†Û’ شیعوں Ú©Û’ لئے علمی اورتبلیغی فعالیت وسر گرمیاں Ú¾ÛŒ انجام دیں نیز اپنی امامت کا Ú©Ú¾Ù„ کر اعلان کیا اور تقیہ سے باھر آئے مزید دوسرے تمام فرق Ùˆ مذاھب Ú©Û’ اصحاب سے بحث وگفتگو کی، اور ان میں سے بعض کوجواب سے مطمئن کیا جیسا کہ اشعری قمی نقل کرتا Ú¾Û’: امام کاظم(علیہ السلام) اور امام رضا(علیہ السلام) Ú©Û’ زمانے میں اھل سنّت فرقہ سے مرحبہٴ اور زیدیوں Ú©Û’ چند افراد شیعہ Ú¾Ùˆ گئے اور ان دو اماموں(علیہ السلام) Ú©ÛŒ امامت Ú©Û’ قائل ھوگئے۔[108]

بعض خُلفائے عباسی کی کوشش یہ تھی کہ ائمہ طاھرین(علیہ السلام) کو اپنی نظارت میں رکھیں تاکہ ان پر کنٹرول کر سکیں، ان حضرات کو مدینہ سے لاتے وقت اس بات کی کوشش کی کہ ان کو شیعہ نشین علاقہ سے نہ گذارا جائے، اسی وجہ سے امام رضا(علیہ السلام) کو مامون کے دستور کے مطابق” بصرہ“، ”اھواز“ اور” فارس“ کے راستے سے مرو لے گئے نہ کہ کوفہ،جبل ا ور قم کے راستے سے کیونکہ یہ شیعوں کے علاقے تھے۔[109]

 ÛŒØ¹Ù‚وبی Ú©Û’ نقل Ú©Û’ مطابق جس وقت امام ھادی علیہ السلام Ú©Ùˆ متوکل عباسی Ú©Û’ دستور Ú©Û’ مطابق سامرّہ لےجایا گیا توجس وقت آپ بغداد Ú©Û’ نزدیک Ù¾Ú¾Ù†Ú†Û’ تب اس بات سے باخبر ھوئے کہ کافی تعداد میں لوگ امام(علیہ السلام) Ú©Û’ دیدار Ú©Û’ منتظر ھیں یہ لوگ وھیں ٹھھر گئے اور رات Ú©Û’ وقت شھر میں داخل ھوئے اور وھاں سے سامرہ گئے، [110]عباسیوں Ú©Û’ دور میں شیعہ حضرات، دور در از اور مختلف مناطق میں پراگندہ تھے ائمہ طاھرین(علیہ السلام) Ù†Û’ وکالت Ú©Û’ نظام Ú©ÛŒ داغ بیل ڈالی اور مختلف مناطق اور شھروں میں اپنے نائب اور وکیل معین کئے تاکہ ان Ú©Û’ اور شیعوں Ú©Û’ درمیان رابطہ قائم ھوسکے، یہ مطلب امام صادق(علیہ السلام) Ú©Û’ زمانے سے شروع ھوا اس وقت خلفا کا کنٹرول ائمہ طاھرین(علیہ السلام) پر جتنا شدید Ú¾Ùˆ تا گیا اتنی Ú¾ÛŒ شیعوں Ú©ÛŒ دسترسی اماموں تک مشکل ھوتی گئی اور اسی اعتبار سے وکالت اور وکیلوں Ú©Û’ نظام Ú©ÛŒ اھمیت میں اضافہ ھوتاگیا، کتاب تاریخ عصر غیبت میں آیا Ú¾Û’ کہ مخفی کمےٹیو Úº Ú©Û’ پھیلنے اورتقویت پانے کا سب سے اھم ترین سبب وکلا ھیں، یہ نظام امام صادق(علیہ السلام) Ú©Û’ زمانے سے شروع ھوا اور عسکریین Ú©Û’ دور میں س میں بھت زیادہ ترقی اور وسعت ھوئی۔[111]

استاد پیشوائی اس بارے میں لکھتے ھیں: شیعہ ائمہ(علیہ السلام) جن بحرانی شرائط سے عباسیوں کے زمانے میں رو برو تھے وہ سبب بناکہ ان کی پیروی کرنے والوں کے درمیان رابطہ برقرار کرنے کے لئے نئے وسائل کی جستجوکی جائے اور ان کی بروئے کار لایا جائے اور یہ وسائل وکالت کے ارتباط اور نمائندوں سے رابطہ نیز وکیلوں ا تعین کرنا مختلف مناطق میں امام(علیہ السلام)کے توسط سے تھا، وکلا اورنمائندوں کے معین کرنے کا مقصد مختلف مناطق سے خمس و زکوٰة،ھدایا اورنذورات کی رقم کا جمع کرنا تھا اور وکلاکے توسط سے لوگوں کی طرف سے ھونے والی فقھی مشکل اور عقیدتی سوالات کا امام(علیہ السلام) کو جواب دینا تھا چنانچہ اس طرح کی کمےٹیاں امام(علیہ السلام) کے مقاصدکو آگے بڑھانے میں کافی موٴثر رھیں ۔[112]

وہ مناطق اور علاقے کہ جھاں امام(علیہ السلام)کے وکیل اور نائب ھوا کرتے تھےوہ مندرجہ ذیل ھیں، کوفہ،بصر ہ،بغداد قم،واسط،اھواز،ھمدان،سیستان،بست، ری، حجاز، یمن، مصر اورمدائن۔[113]

شیعہ مذھب چوتھی صدی ھجری میں ، شرق وغرب اور اسلامی دنیا کے تمام مناطق میں اتنی اوج اور بلندی پیدا کر چکا تھا کہ اس کے بعد اور اس سے پھلے ایسی وسعت دیکھنے میں نھیں آئی… مقدسی نے شیعہ نشین شھروں کی فھرست اس دور کے اسلامی سر زمین میں جو پیش کی ھے وہ اس مطلب کی طرف نشاندھی کرتی ھے، ھم اس کی کتاب سے وہ عبارت نقل کرتے ھیں جس میں اس نے ایک جگہ کھا ھے: یمن، کرانہ، مکہ اور صحار میں اکثر قاضی معتزلی اور شیعہ تھے۔[114]

جزیرة العرب میں بھی کافی شیعیت پھیلی ھوئی تھی،[115] اھل بصرہ کے ارد گردرھنے والوں کے بارے میں ملتا ھے کہ اکثر اھل بصرہ قدری،شیعہ،معتزلی یاپھر حنبلی تھے[116]کوفہ کے لوگ بھی اس صدی میں کناسہ کے علاوہ سب شیعہ تھے، [117] وصل کے علاقوں میں بھی کچھ شیعہ موجود تھے، [118]اھل نابلس، قدس اور عُمان میں بھی شیعوں کی اکثریت تھی، [119]قصبہ فسطاط اور صندفا کے لوگ بھی شیعہ ھی تھے[120]سندہ کے شھر ملتان میں بھی شیعہ تھے کہ جو اذان واقامت میں ھرفقرے کو دوبار پڑھتے ھیں۔[121]

اھواز میں شیعہ اور سنی کے درمیان حالات کشیدہ رھے اورجنگ تک نوبت پھونچ گئی۔[122]

مقریزی نے بھی حکومت آل بویہ اور مصری فاطمیوں کی طرف اشارہ کرتے ھوئے لکھا ھے رافضی مذھب مغرب کے شھروں میں شام، دیار بکر، کوفہ، بصرہ، بغداد، پورے عراق، خراسان کے شھر، ماوراء النھراور اسی طرح حجاز، یمن، بحرین، میں پھیل گیا، ان کے اور اھل سنت کے درمیان اس قدر جنگیں ھوئیں کہ جن کو شمارنھیں کیا جا سکتا، [123]اس صدی میں بغداد میں بھی اکثر شیعہ ھی تھے جب کہ بغدادبنی عباس کی خلافت کا مرکز تھا اور جتنا ھو سکتا تھا روز عاشو را کھل کر آزادانہ طور پر عزاداری کرتے تھے، جیسا کہ ابن کثیر کا بیان ھے شیعوں کی کثرت اورحکومت آل بویہ کی حمایت کی بنا پر اھل سنت ان کو اس



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 next