شیعی تاریخ میں تحول وتغیر



<الف> عصر امام حسن ۱و امام حسین علیھما السلام

امیرالمومنین(علیہ السلام) کے زمانہ میں شیعیت نے آھستہ آھستہ ایک گروہ کی شکل اختیار کر لی تھی اور شیعوں کی صف بالکل نمایاں تھی اسی بنیاد پر امام حسن(علیہ السلام) نے صلح نامہ کے شرائط میں ایک شرط شیعوں کی امنیت کی رکھی تھی کہ ان پر تجاوز نہ کیا جائے[27]

شیعہ رفتہ رفتہ عادت ڈال رھے تھے کہ جو امام اور خلیفہ حکومت سے وابستہ ھو اس کی اطاعت ضروری نھیں ھے، اسی وجہ سے جس وقت لوگ دھیرے دھیرے امام حسن(علیہ السلام) کے ھاتھ پر بیعت کررھے تھے حضرت نے ان سے شرط رکھی تھی کہ وہ جنگ و صلح میں آپ کی اطاعت کریں گے اس طرح واضح ھو جاتا ھے کہ امامت لازمی طور پر حاکمیت کے مساوی نھیں ھے اور معاویہ جیساظالم حاکم امام نھیں ھو سکتا اور اس کی اطاعت واجب نھیں ھے، چنانچہ امام(علیہ السلام) نے جو خطبہ صلح کے بعد معاویہ کے فشار کی وجہ سے مسجدکوفہ میں دیا، اس میں فرمایا:

 Ø®Ù„یفہ وہ Ú¾Û’ جو کتاب خدا اور سنت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عمل کرے، جس کا کام ظلم کرناھے وہ خلیفہ نھیں ھوسکتا بلکہ وہ ایک بادشاہ Ú¾Û’ جس Ù†Û’ ایک ملک Ú©Ùˆ اپنے ھاتھ میں Ù„Û’ لیا ھےمختصر سی مدت تک اس سے فائدہ اٹھائے گا بعدمیں اس Ú©ÛŒ لذتیں ختم Ú¾Ùˆ جائیں Ú¯ÛŒ لیکن بھر حال اسے حساب Ùˆ کتاب دینا Ù¾Ú‘Û’ گا[28]

اس دور کے تشیع کی دوسری خصوصیت شیعوں کے درمیان اتحاد ھے جس کا سرچشمہ بھترین رھبر کا وجود ھے امام حسین(علیہ السلام) کی شھادت تک شیعوں میں کوئی فرقہ نھیں تھا امام حسن(علیہ السلام) اور امام حسین علیہ السلام کو مسلمانوں کے درمیان ایک خاص اھمیت حاصل تھی ان کے بعد ائمہ طاھرین(علیہ السلام) میں سے کسی کوبھی یہ مقام حاصل نھیں ھوسکایھی دونوں فرزندتنھا ذریت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے، امیرالمومنین(علیہ السلام) نے جنگ صفین میں جس وقت دیکھا کہ امام حسن(علیہ السلام) تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رھے ھیں فرمایا: میرے بجائے تم اس جوان کی حفاظت کرو(ان کو جنگ سے روکومجھے مضطرب نہ کرو مجھے ان دونوں کی بھت فکر ھے) یہ دونوں جوان(امام حسن(علیہ السلام) وامام حسین(علیہ السلام)) قتل نہ ھوں کیونکہ ان کے قتل ھونے سے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نسل منقطع ھوجائے گی۔[29]

حسنین(علیہ السلام) کا مقام اصحاب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان بھی ایک خاص اھمیت کا حامل تھا اس کی دلیل یہ ھے کہ لوگوں نے امام حسن(علیہ السلام) کی بیعت کی اور صحابہٴ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت کی خلافت کو قبول کیایھی وجہ ھے کہ خلافت امام حسن(علیہ السلام) میں کوئی مشکل دیکھنے میں نھیں آتی کسی نے اعتراض تک نھیں کیا، صرف شام کی حکومت کی طرف سے مخالفت کی گئی جس وقت حضرت نے صلح کی اور کوفہ سے مدینہ جانا چاھا تو لوگوں نے شدت سے گریہ کیا مدینہ میں قریش کی طرف سے کسی نے معاویہ کو جو خبر دی اس سے حضرت کی اھمیت و عظمت کا اندازہ ھوتا ھے قریش کے کسی آدمی نے معاویہ کو لکھا: یاامیرالمومنین امام حسن(علیہ السلام) نماز صبح مسجد میں پڑھتے ھیں، مصلیٰ پر بیٹھ جاتے ھیں اور سورج طلوع ھونے تک بیٹھے رھتے ھیں، ایک ستون سے ٹیک لگائے ھوتے ھیں اور جو لوگ بھی مسجد میں ھوتے ھیں ان کی خدمت میں جاتے ھیں اور ان سے گفتگو کرتے ھیں یھاں تک کہ کچھ حصہ دن کا چڑھ جاتا ھے اس کے بعددو رکعت نماز پڑھتے ھیں اور آگے بڑھ جاتے ھیں اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بیو یوںکی احوال پرسی کرتے ھیں اور اس کے بعد اپنے گھر تشریف لے جاتے ھیں۔[30]

 Ø§Ù…ام حسین(علیہ السلام) کا بھی اپنے بڑے بھائی Ú©ÛŒ طرح اقبال بھت بلند تھا یھاں تک کہ عبداللہ بن زبیر جو اھل بیت(علیہ السلام) کاسر سخت دشمن تھا وہ بھی امام حسین(علیہ السلام) Ú©ÛŒ عظمت سے انکار نہ کرسکا،جب تک حضرت مکہ میں تھے لوگوں Ù†Û’ ابن زبیر Ú©ÛŒ طرف کوئی توجہ نہ دی اسی بنا پر وہ چاھتا تھا کہ امام جلدی مکہ سے Ú†Ù„Û’ جائیں لہذا ا مام(علیہ السلام) سے کھتاھے کہ اگر میرا بھی آپ Ú©ÛŒ طرح عراق میں بلند مقام ھوتا تومیں بھی وھاں جانے میں جلدی کرتا۔[31]

حضرت کا مرتبہ اس قدر بلند تھا کہ جب آپ نے بیعت سے انکار کردیا تو حکومت یزیدزیر بحث آگئی اور یھی وجہ ھے کہ حضرت سے بیعت لینے کا اصرار و فشار اس قدر زیادہ تھا، بنی ھاشم کے ان دو بزرگوں کا ایک خاص احترام واکرام تھا اس طرح سے کہ ان کے زمانے میں ، بنی ھاشم میں سے نہ ھی کسی نے رھبری کا دعویٰ کیا اور نہ ھی کوئی(بنی ھاشم کی)سرداری کا مدعی ھوا،جس وقت امام حسن(علیہ السلام) معاویہ کے زھر دینے کی وجہ سے دنیا سے رخصت ھوگئے تو شام میں معاویہ نے ابن عباس سے کھا: اے ابن عباس امام حسن(علیہ السلام) وفات کر چکے ھیں اور اب تم بنی ھاشم کے سردار ھو، ابن عباس نے جواب دیا: جب تک امام حسین(علیہ السلام) موجود ھیں اس وقت تک نھیں۔[32]

ابن عباس بلند مقام، مفسر قرآن ا ور حبرالامة تھے اور سن میں بھی امام حسن(علیہ السلام) اور امام حسین(علیہ السلام) دونوں سے بڑے تھے اس کے باوجود ان دوبزرگواروںکی خدمت کرتے تھے مدرک بن ابی زیاد نقل کرتا ھے:

ابن عباس امام حسن(علیہ السلام) امام حسین(علیہ السلام) Ú©ÛŒ رکاب سنبھالتے تھے تاکہ یہ دو حضرات سوار ھوجائیں، میں Ù†Û’ کھا: آپ ایساکیوں کرتے ھیں توانھوں Ù†Û’ فرمایا: احمق  تو نھیں جانتا کہ یہ کون لوگ ھیں یہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Ú©Û’ فرزند ھیں کیا یہ ایک عظیم نعمت نھیں Ú¾Û’ جس Ú©ÛŒ خدانے مجھے توفیق دی Ú¾Û’ کہ میں ان Ú©ÛŒ رکاب پکڑوں؟ [33]

تشیع کی وسعت میں انقلاب کربلاکا اثر

امام حسین(علیہ السلام) کی شھادت کے بعد شیعہ اپنی پناہ گاہ کھو دینے کے بعد کا فی خوف زدہ تھے اور دشمن کے مقابلہ میں مسلحانہ تحریک اوراقدام سے نا امید ھو گئے تھے دل خراش واقعہٴ عاشورہ کے بعد مختصر مدت کے لئے انقلاب شیعیت کو کافی نقصان پھونچا،اس حادثہ کی خبر پھیلنے سے اس زمانے کی اسلامی سر زمین خصوصاً عراق و حجاز میں شیعوں پر رعب و وحشت کی کیفیت طاری ھوگئی تھی کیونکہ یہ مسلّم ھو گیا کہ یزید فرزند رسو(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرکے نیز ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کرکے اپنی حکومت کی بنیاد مستحکم کرنا چاھتا ھے اور وہ اپنی حکومت کوپائیدار کرنے میں کسی بھی طرح کے ظلم سے گریز نھیں کرنا چاھتا ھے اس وحشت کے آثار مدینہ اور کوفہ میں بھی نمایاں تھے، واقعہ حرّہ کے ظاھر ھوتے ھی لوگوں کی بے رحمانہ سرکوبی میں یزید کی فوج کی جانب سے شدت آگئی تھی عراق و حجازکے شیعہ نشین علاقے خاص کر کوفہ اور مدینہ میں سانس لینابھی دشوارھو گیا اور شیعوں کی یکجھتی و انسجام کا شیرازہ یکسر منتشر ھوگیا تھا امام صادق(علیہ السلام) اس ابتر اورناگفتہ بہ وضعیت کے بارے میں فرماتے ھیں: امام حسین(علیہ السلام) کی شھادت کے بعد لوگ خاندان پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اطراف سے پرا گندہ ھو گئے ان تین افراد کے علاوہ ابو خالد کابلی، یحییٰ ابن ام الطویل، جبیر ابن مطعم۔[34]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 next