شیعی تاریخ میں تحول وتغیر



 Ø¬ÛŒØ³Ø§ کہ عمر بن یثربی کہ جو دشمن علی(علیہ السلام) تھا،محبان علی(علیہ السلام) Ú©Ùˆ قتل کر Ú©Û’ افتخار کرتا تھا وہ شعر میں کھتاھے:

ان تنکرونی فانا ابن یثربی قاتل علباء

 Ùˆ ھند الجملی ثم ابن صوحان علی دین علي

 Ø§Ú¯Ø± مجھے نھیں پھچانتے تو پھچان لو میں یثربی کا فرزند Ú¾ÙˆÚº اورعلبا Ùˆ ھندجملی کا قاتل Ú¾ÙˆÚº( یہ دو لوگ علی(علیہ السلام) Ú©Û’ دوستوں اور شیعوں میں سے تھے) اور میں Ù†Û’ علی(علیہ السلام) Ú©ÛŒ دوستی Ú©Û’ جرم میں صوحان Ú©Û’ بیٹے Ú©Ùˆ بھی قتل کیا Ú¾Û’Û”[18]

<Û²> شیعہ، بنی امیہ Ú©Û’ زمانہ میں         

بنی امیہ کا زمانہ شیعوں کے لئے بھت دشوار زمانہ تھا جو چالیس ھجری سے شروع ھوتا ھے اور ایک سو بتیس ھجری تک جاری رھتا ھے، عمر بن عبد العزیز کے علاوہ تمام خلفائے اموی شیعوں کے سخت ترین دشمن و مخالف تھے، البتہ ھشام اموی کے بعد سے وہ داخلی اختلافات وشورش کا شکار ھوگئے تھے اور عباسیوں سے مقابلہ میں لگ گئے تھے اور گذشتہ سختیوں میں کمی آگئی تھی خلفائے بنی امیہ شام کے علاقہ میں وھاں کے حاکموں کے ذریعہ شیعوں کے اوپر فشار لاتے تھے اور تمام اموی حکام، شیعوں کے دشمنوں میں سے منتخب ھوتے تھے جو شیعوں کو اذیت دینے سے گریز نھیں کرتے تھے لیکن ان کے درمیان زیاد، عبیداللہ بن زیاد اور حجاج بن یوسف نے ظلم کرنے میں دوسروں پر سبقت کی، اھل تسنن کا مشھور دانشمند ابن ابی الحدید لکھتا ھے: شیعہ جھاں کھیں بھی ھو تے تھے ان کو قتل کر دیا جاتا تھا، بنی امیہ صرف شیعہ ھونے کے شبہ کی وجہ سے لوگوںکے ھاتھ پیر کاٹ دیا کرتے تھے جو بھی خاندان پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرتا تھا اس کو زندان میں ڈال دیتے تھے یا اس کے مال لوٹ لیا کرتے تھے یا اس کا گھر ویران کر دیا جاتا تھا، اس ناگفتہ بہ صورت حال کی شدت اس حدتک پھنچ چکی تھی کہ علی(علیہ السلام) سے دوستی کی تھمت لگانا کفر و بے دینی سے زیادہ بد تر شمار کیا جاتا تھا اور اس کے نتائج بڑے سخت ھوتے تھے، اس خشونت آمیز سیاست میں کوفہ کے حالات کچھ زیادہ بدتر تھے کیونکہ کوفہ شیعیان علی(علیہ السلام) کا مرکز تھا معاویہ نے زیاد بن سمیہ کوکوفہ کا حاکم بنادیاتھا، بعد میں بصرہ کی سپہ سالاری بھی اس کے حوالہ کردی گئی، زیادچونکہ پھلے کبھی علی(علیہ السلام) کے دوستوں کی صفوں میں تھاجو شیعیان علی(علیہ السلام) کو اچھی طرح پھچانتا تھا اس نے شیعوں کا تعاقب کیا، شیعہ جھاں کھیں گوشہ و کنار میں مخفی تھے ان کو ڈھونڈکر قتل کردیا ان کے ھاتھ پیر کاٹ دیئے اور ان کو نا بینا بنادیا اور انھیں کھجور کے درخت پرپھانسی دے دی نیز انھیں شھر بدر کر دیا یھاں تک کہ کوئی بھی مشھور شیعہ شخصیت عراق میں باقی نھیں رھی۔[19]

 Ø§Ø¨Ùˆ الفرج عبد الرحمن بن علی بن الجوزی کھتا Ú¾Û’:

زیادمنبر پر خطبہ دے رھا تھا کچھ شیعوں نے اس پر اعتراض کیا اس نے حکم دیا اسی۸۰ افراد کے ھاتھ پیر کاٹ دیئے جائیں وہ لوگوں کو مسجد میں جمع کرتا تھا اوران سے کھتا تھا کہ علی(علیہ السلام) پر تبر اکرو اور جو بھی تبرانھیں کرتا تھا، حکم دیتا کہ اس کا گھر کو منھدم کر دیا جائے۔[20]

زیاد ہ چھ مھینہ کوفہ میں اور چھ مھینہ بصرہ میں حکومت کرتا تھا، سمرہ ابن جندب کو بصرہ میں پنی جگہ رکھتا تھا تاکہ اس کی غیر موجودگی میں وہ امور حکومت کی دیکھ بھال کرتا رھے، سمرہ نے اس مدت میں آٹھ ہزار افراد کو قتل کیا تھازیاد نے اس سے کھا: کیا تجھے خوف نھیں ھوا کہ تونے ان میں سے کسی ایک بے گناہ کو بھی قتل کیا ھو؟ سمرہ نے جواب دیا: اگر اس کے دو برابر بھی قتل کرتا تب بھی اس طرح کی کوئی فکرلاحق نھیں ھوتی۔[21]

ابو سوارعدوی کھتا ھے: سمرہ نے ایک دن صبح میں ۴۷، افراد کو قتل کیا جومیرے قبیلہ سے وابستہ تھے اور سب کے سب حافظ قرآن تھے۔[22]

معاویہ نےخط میں اپنے کارندوں کو لکھا کہ شیعیان اورخاندان علی(علیہ السلام) میں سے کسی کی گواھی قبول نہ کرنا، اور دوسرے خط میں لکھا کہ اگر دو افرادگواھی دیں کہ اس کا تعلق شیعیان علی(علیہ السلام) اور دوستداران علی(علیہ السلام) سے ھے تو اس کانام بیت المال کے دفتر سے حذف کردو اور اس کے وظائف اورحقوق کو قطع کردو۔[23]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 next