شیعی تاریخ میں تحول وتغیر



مورخ مسعودی بھی ا س بارے میں کھتا ھے: ”علی(علیہ السلام) بن حسین(علیہ السلام) مخفی اور تقیہ کی حالت میں بھت دشوار زمانے میں امامت کے عھدے دار ھوئے، [35]یہ وضعیت حکومت یزید کے خاتمہ تک جاری رھی، یزید کے مرنے کے بعد شیعوں کا قیام شروع ھوا اور اموی حکومت کے مضبوط ھونے تک یعنی عبدالملک کی خلافت تک یہ سلسلہ جاری رھا، یہ مدت تشیع کے فروغ کے لئے ایک اچھی فرصت ثابت ھوئی، قیام کربلا کی جو اھم ترین خاصیت تھی وہ یہ کہ لوگوں کے ذھنوں سے بنی امیہ کی حکومت کی مشروعیت یکسرختم ھوگئی تھی اور حکومت کی بدنامی اس حدتک پھنچ چکی تھی کہ خلافت بالکل سے اپنی حیثیت کھو چکی تھی اور لوگ اسے پاکیزہ عنوان نھیں دیتے تھے یزید کی قبر سے خطاب کر کے جو شعر کھا گیا اس سے بخوبی اس بات کا اندازہ ھو سکتا ھے:

ایھا القبر بحوارینا

 Ù‚دضمنت شر الناس اجمعینا[36]

اے وہ قبرکہ جو حوارین کے شھر میں ھے لوگوں میں سے سب سے بد ترین آدمی کو اپنے اندر لئے ھوئے ھے۔

اس زمانہ میں سوائے شامیوں کے شیعہ و سنی سب کے سب، حکومت بنی امیہ کے مخالف تھے، شیعہ اور سنی کی جانب سے بغاوتیں بھت زیادہ جنم لے رھی تھیں۔[37]

یعقوبی لکھتا ھے: ” عبدالملک بن مروان نے اپنے حاکم حجاج بن یوسف کو لکھا تک تو مجھے آل ابی طالب کا خون بھانے میں ملوث نہ کر کیونکہ میں نے سفیانیوں(ابوسفیان کے بیٹے)کا نتیجہ ان کے قتل کرنے میں دیکھا کہ کن مشکلات سے دوچار ھوئے تھے“[38]

آخرکار خون امام حسین علیہ السلام نے بنی امیہ کے قصر کو خاک میں ملا دیا۔

مقدسی کھتا Ú¾Û’: ” جب خداوندعالم  Ù†Û’ خاندان پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بنی امیہ کا ظلم Ùˆ ستم دیکھا تو ایک لشکر Ú©Ùˆ کہ جو خراسان Ú©Û’ مختلف علاقوں سے اکٹھا ھواتھا شب Ú©ÛŒ تاریکی میں ان Ú©Û’ سروں پر مسلط کردیا۔[39]

دوسری طرف سے امام حسین علیہ السلام اور شھداء کربلا کی مظلومیت کی وجہ سے خاندان پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت لوگوںکے دلوں میں بیٹھ گئی اور ان کے مقام کو اولاد پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوراسلام کے تنھا سرپرست ھونے کے عنوان سے مستحکم کردیا، بنی امیہ کے دور میں جگہ جگہ لوگ یالثارات الحسین(علیہ السلام) کے نعرہ کے ساتھ جمع ھوتے، یھاں تک کہ سیستان میں ابن اشعث کاقیام، [40]حسن مثنیٰ فرزند امام حسن علیہ السلام کے نام سیتشکیل پایا [41]اسی بنیاد پر امام مھدی(علیہ السلام) کی احادیث انتقام آل محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عنوان سے پھیلی[42]اور لوگ بنی امیہ سے انتقام لینے والے کا بے صبری اور شدت سے انتظار کرنے لگے[43]کبھی مھدی(علیہ السلام) کے نام کو قیام اور تحریک کے قائدین پر منطبق کرتے تھے۔ [44]

دوسری طرف ائمہ اطھار(علیہ السلام) اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاندان والے شھدائے کربلاکی یادوں کو زندہ رکھے ھوئے تھے،امام سجاد(علیہ السلام) جب بھی پانی پیناچاھتے تھے اور پانی پر نظر پڑتی تھی تو(بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ کا) پروگرام یہ تھا کہ حجاج کو بر طرف کردے پھر خود عبدالملک کو خلافت سے ھٹادے، عبدالملک نے شام سے بھت بڑا لشکر حجاج کی مدد کے لئے روانہ کیا، کوفہ سے سات فرسخ کے فاصلہ پر ”دیر الجماجم “نامی جگہ پر شام کے لشکر نے عبد الرحمن کو شکست دے دی، وہ ھندوستان بھاگا اور وھاں کے ایک بادشاہ سے پناہ طلب کی لیکن حجاج کے عامل نے اسے قتل کر دیا، مسعودی، مروج الذھب، ج ۳ ص ۱۴۸، معجم البلدان، یاقوت حموی، ج ۴ ص ۳۳۸ آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے، جب لوگوں نے اس کا سبب معلوم کیا تو آپ نے فرمایا: کیسے گریہ نہ کروں اس لئے کہ انھوں نے پانی جنگلی جانوروں اور پرندوں کے لئے آزاد رکھاتھا اور میرے بابا کے لئے بند کردیا تھا؛ایک روز امام(علیہ السلام) کے خادم نے دریافت کیا، کیا آپ کا غم تمام نھیں ھوگا؟ امام نے فرمایا: ”افسوس تجھ پر یعقوب(علیہ السلام) کے بارہ بیٹوں میں سے ایک آنکھوں سے اوجھل ھوگیا تھا اس کے فراق میں اتنا گریہ کیا کہ نابینا ھوگئے اور شدت غم سے کمر جھک گئی حالانکہ ان کا فرزند زندہ تھا لیکن میں نے اپنے باپ بھائی، چچا نیز اپنے خاندان کے سترہ افراد کو قتل ھوتے ھوئے دیکھا ھے ان کے لاشے زمین پر پڑے ھوئے تھے لہذا کس طرح ممکن ھے کہ میرا غم تمام ھوجائے [45]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 next