خدا کی معرفت اور اس کا حکیمانہ نظام



 Ø¢Ù†Ø­Ø¶Ø±Øª  ﷺفرماتے ہیں:جب آج دن Ú©Û’ لئے تیرے پاس غذا موجود ہے تو دوسروں Ú©Û’ سامنے ہاتھ نہ پھیلاو اور اس فکر میں نہ رہوکہ Ú©Ù„ کیا ہو گا ۔جو Ú©Ú†Ú¾ اس وقت تمھارے ہاتھ میںہے اسی پر قناعت کرو اور اس Ú©Û’ علاوہ اپنے Ú©Ùˆ بے نیاز جانو اور دل میں دوسروں Ú©ÛŒ نیاز مندی کا تصورتک نہ کرو اگر نیاز مندی کا احساس کیا اور Ú©Ù„ Ú©ÛŒ بہبودی Ú©ÛŒ فکر میں رہے تو خود Ú©Ùˆ دوسروں کا محتاج بنا یا ہے اور Ú©Ù„ Ú©ÛŒ بہبودی Ú©Û’ لئے وسائل حاصل کرنے Ú©ÛŒ غرض سے دوسروں Ú©Û’ سامنے ہاتھ پھیلانے پرمجبور ہوگے  اور اس طرح ذلیل ہو Ú¯Û’ ØŒ کیونکہ جو بھی دوسروں Ú©Û’ سامنے اپنی نیازمندی کا ہاتھ پھیلا تا ہے وہ ذلیل ہوتا ہے ۔لہٰذا اگر عزیز اور سر بلند رہنا چاہتے ہو اسی رزق پر قانع وراضی رہو جسے  خدائے متعال Ù†Û’ تمھارے لئے مقدر کیا ہے Û” اگر انسان طمع اورلالچ میں مبتلا ہوا،تو جس قدر آرام وآسائش Ú©Û’ وسائل اس Ú©Û’ لئے فراہم ہو جائیں،پھر بھی وہ اسی فکر میں رہتا ہے کہ کیا کروں  تاکہ اپنے مال ودولت میں اضافہ کروں اور اپنے لئے مزید Ùˆ سائل Ùˆ امکا نات حاصل کروں ۔وہ اس طرزتفکر Ú©ÛŒ وجہ سے ہمیشہ اپنے آپ کودوسروں کا محتاج پاتا ہے اور اپنے بارے میںسوچنے Ú©ÛŒ فرصت پیدانہیں کرتاہے تاکہ کمالات انسانی Ú©Û’ بارے میںغورو فکر کرے۔ کہ کس لئے پیدا کیاگیا ہے ،اپنی آخرت Ú©Û’ لئے کیا کیا ہے Û” وہ دنیا میںطمع اورلالچ Ú©Û’ دام میں گرفتار ہوتا ہے اور ایک لمحہ بھی فراغت وآسائش سے نہیں گزار تااور بالآخر زاد راہ Ú©Û’ بغیرخالی ہاتھ اس دنیاسے رخت سفر باندھتا ہے Û”

اگر انسان آج Ú©Û’ رزق پر مطمئن ہو جائے اورخود Ú©Ùˆ بے نیاز کرلے اور دوسروں Ú©Û’ سامنے ہاتھ نہ پھیلائے، تو وہ اپنا وقت اپنی ترقی ،بلندی اور کمال حاصل کر Ù†Û’ Ú©Û’ لئے صرف کر سکتا ہے Û” اپنے قناعت Ú©Û’ سرمایہ سے کہ جس Ú©Ùˆ اس Ù†Û’ ذخیرہ کر رکھا ہے اسے مواقع فراہم کرلے تاعبادت، تحصیل علم ØŒ جہاد ØŒ خدمت خلق بالآخر خداکی مرضی Ú©Û’ مطابق اور اپنی آخرت Ú©Û’ لئے  ہر مفید کام Ú©Ùˆ انجام دے Û”

حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:

”اظہر الیاس من الناس فان ذلک من الغنا Û”Û”Û” “  Û±# 

”لوگوں سے ناامیدی کا احساس  ظاہری کرو،کیونکہ یہ حالت غنی اور بے نیاز ہونے کا نتیجہ ہے۔“

  اور حضرت امیرا لموٴمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

”اشرف  الغنی ترک المنی“ Û²#

-------------------------------------------------

     Û±Û” بحار الانوار،ج/ ۷۱،ص/ Û±Û¸Ûµ

     Û²Û” نہج البلا غہ (فیض الاسلام)حکمت / ۳۳، ص/ Û±Û±Û°Û³

”بالا ترین بے نیاز ی طولانی آرزؤںسے دوری ہے “

انسان Ú©Ùˆ لو Ú¯ÙˆÚº Ú©Û’ پاس موجودہ چیزوں سے زیادہ اس پر امیدرکھنی چاہئے جو خدا Ú©Û’ پاس موجود ہے اور یہ نفس Ùˆ خلق سے بے نیازی تب تک حاصل نہیں  ہو سکتی ہے جب تک کہ انسان خدائے متعال پر اطمینان ،اس پر تو Ú©Ù„ØŒ دوسروں پر اعتماد نہ کرنا اور نفع Ùˆ نقصان Ú©Û’ خداکے ہاتھ میں ہونے کا یقین پیدا نہ کرے اور جان Ù„Û’ کہ جو بندوں Ú©Û’ حق میں ہے اسے خدا انجام دیتا ہے ،اور جوان Ú©ÛŒ صلاح میں نہیں ہے اس سے انھیں باز رکھتا ہے ،اس صورت میںبندہ دوسروں سے بے نیاز ہوتا ہے ،حتی اگر اس کا ہاتھ مال دنیا سے خا Ù„ÛŒ بھی ہوتو بھی اپنے آپ کودولت مند تصور کرتاہے ،چنانچہ نبی اکرم   فرماتے ہیں :

”لیس الغنا فی کثرة العر ض انما الغنی غنی النفس“   Û±#

” دولت مندی اور غنی ہونازیادہ  مال میں نہیں ہے اور بیشک دولت مندی نفس Ú©ÛŒ بے نیازی میں ہے۔“

 

 

-----------------------------------------

   ۱۔بحار الانوار ج۱۰۳،ص۳۰



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16