خدا کی معرفت اور اس کا حکیمانہ نظام



” تعرف الی اللّٰہ فی الرخاء یعر فک فی الشدة“

        ”گنجائش Ú©Û’ وقت اپنے آپ Ú©Ùˆ خدائے تعالے سے آشنا کروتاکہ وہ تجھے تنگدستی Ú©ÛŒ حالت میں پہچانے۔“

       اس Ú©Û’ پیش نظر کہ خدائے متعال بے نہایت قدرت رکھتا ہے اور جو Ú©Ú†Ú¾ کائنات میں انجام پاتا ہے اسکے  ارادہ ومشیت سے ہے اور اس Ú©Û’ ارادہ Ú©Û’ دائرہ سے کوئی چیزخارج نہیں ہے ،ہرحالت میںانسان Ú©Ùˆ اس Ú©ÛŒ طرف توجہ رکھنی چاہئے․ اگر مشکل اور گرفتاری سے دوچار ہے تو صرف خدا Ú©ÛŒ طرف توجہ کرے اور اس سے مشکلات Ú©Ùˆ دورکرنےکی درخواست کرے اسی طرح جب آسائش نصیب ہو توخدا Ú©Ùˆ مد نظررکھے ،کیونکہ آسائش Ú©ÛŒ نعمت Ú©Ùˆ خدائے متعال Ù†Û’ اس Ú©Û’ اختیار میں قرار دیا ہے۔

        فطری بات ہے کہ جب انسان کسی گرفتاری اور نامناسب حادثہ سے دو چار ہوتا ہے تو خدائے متعال Ú©ÛŒ طرف رخ کرتا ہے ،چنانچہ پروردگار عالم مشرکین Ú©Û’ بارے میں فرماتا ہے:

<فا ذا رکبوا فی الفلک دعوااللّٰہ مخلصین لہ الدین فلما نجیہم الی البر اذاہم یشر کون>    (عنکبوت/Û¶Ûµ)

 â€Ù¾Ú¾Ø± جب یہ لو Ú¯ کشتی میں سوار ہوتے ہیں(اور کشتی خطرے سے دو چار ہوتی ہے)تو ایمان وعقیدہ Ú©Û’ پورے اخلاص Ú©Û’ ساتھ خدا Ú©Ùˆ پکارتے ہیں پھرجب وہ نجات پاکر خشکی میں پہونچ جاتے ہیں تو مشرک ہوجاتے ہیں “

      یہ کوئی کمال نہیں ہے کہ انسان سختیوں ومشکلات اور ہر طرف سے بلاؤں Ú©Û’ حملوں Ú©Û’ وقت خداکی طرف توجہ کرے ،البتہ ایسے لوگ بھی ہیں جو بارگاہ الہی سے اتنے دور ہو Ú†Ú©Û’ ہیں کہ حتی مصیبتوں میں بھی خدا Ú©Ùˆ یاد نہیں کرتے،لیکن جس Ú©Û’ دل میں ذرّہ برابر بھی ایمان ہے تو Ú©Ù… ازکم سختی اور مشکل Ú©Û’ وقت خدا Ú©Ùˆ یاد کرتا ہے ․پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:اگر چاہتے ہوکہ ہر وقت خدا Ú©Ùˆ یاد کرو ØŒ وہ تجھے جواب دے اور تیری فریاد رسی کرے ،توآرام Ùˆ آسایش Ú©Û’ وقت خداسے اپنے رابطہ Ú©ÛŒ حفاظت کرو اور اس سے آشنائی حاصل کرنا ،چونکہ اگر اس وقت اس سے ناآشنا ہوئے ØŒ تو یہ تو قع نہ رکھنا کہ وہ گرفتاری Ú©Û’ وقت تیری فریاد رسی کرے گا،آرام وآسائش Ú©Û’ وقت خدا Ú©Ùˆ یاد کرو ØŒ تاکہ مشکلات میں اس Ú©Ùˆ پکارتے وقت وہ تجھے لبیک کہے۔

        ہم سب،کم وبیش،اپنی اپنی زندگی میں مشکلات اور مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ہیں،اور تھوڑی دیر یا زمانے Ú©Û’ بعد اس سے نجات اور جھٹکا رہ پاجاتے ہیں ،لیکن ہم بہت ہی سادگی Ú©Û’ ساتھ ان قضیوں پس پشت ڈال دیتے ہیںاور اس رہائی اور آسائش Ú©ÛŒ نعمت جسے خدائے متعال Ù†Û’ ہمیں مشکلات Ú©Û’ بعد ہمیںعنا یت Ú©ÛŒ تھی اس Ú©Û’ بارے میں غور Ùˆ فکر نہیں کرتے ۔جبکہ بلائیں اور مشکلات انسان Ú©Ùˆ بیدار کرنے اور اسے خدا Ú©ÛŒ طرف توجہ دلا Ù†Û’ Ú©Û’ لئے ہوتی ہیں تاکہ وہ نعمتوں Ú©ÛŒ قدر Ú©Ùˆ جان Ù„Û’Û”

           اگر ہمارے لئے کوئی خطر ناک صورت حا Ù„ پیش آجاتی ہے۔مثلا ہمارا کوئی عزیز سخت بیما ر ہوجاتا ہے امیدوں Ú©Û’ تمام دروازے ہمارے لئے بند ہوجاتے ہیں اور شدید خطرے سے دو چار ہوتے ہیں،اگر اس مایوسی Ùˆ ناامیدی Ú©Û’ عالم میںکسی Ù†Û’ ہماری مدد کردی ،ایک طبیب یا ڈاکٹر اچانک آگیا اور اس Ù†Û’ ہمارے بیمار کا علاج کردیا اور اسے ہلاک ہونے سے بچالیااور اسی طرح سیکڑوںحوادث جو ہمارے لئے پیش آتے ہیں اور ہم اس سے نجات پاجاتے ہیں،ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ان مشکلات سے رہائی Ú©Û’ بارے میں ہم کیا اخذ کیا ہے ؟کیا ان سب Ú©Ùˆ ہم اتفاقی سمجھیں اور کہیں کہ اتفاقا ایسا ہوا ہے ØŸ ہر گز ایسا نہیں ہے بلکہ یہ سب خدائے متعال Ú©ÛŒ مہر بانیاں ہیں ،خدائے متعال Ú©ÛŒ مہر بانیاں اور عنایتیں ہمارے شامل حال ہوتی ہیں اور ہم ان خطرات سے بچ جاتے ہیں۔

     نظام خلقت میں جو Ú©Ú†Ú¾ واقع ہوتا ہے ،سب ارادئہ الہی Ú©Û’ نتیجہ میں ہے اور کوئی چیز خدا Ú©ÛŒ مرضی Ú©Û’ خلاف واقع نہیں ہو تی ۔اگر انسان Ú©Ùˆ کوئی نعمت ملتی ہے یا کوئی بلا اس سے دور ہوتی ہے ،سب خدائے متعال Ú©Û’ ارادہ سے ہے Û” وہ اسباب اور شرائط Ú©Ùˆ فراہم کرتا ہے ،خواہ وہ اسباب معمولی ہوں یا غیر معمولی خواہ ہم انھیں جانیں یانہ جانیں۔( اگر چہ جب ہم غیر معمولی اسباب ----- جنھیں ہم اتفاق  سے تعبیر کر تے ہیں-----پر توجہ کرتے ہیں تو متاٴ ثر ہوتے ہیں )یہ خدائے متعال ہے  جو ہمیشہ انسان Ú©Ùˆ رزق پہنچا تا ہے  ،خواہ معمولی اسباب Ú©Û’ ذریعہ جیسے کسب معاش یا خواہ غیر معمولی اسباب Ú©Û’ ذریعہ ،جیسے مائدہ آسمانی Û” انسان Ú©ÛŒ مشکلات کا دور ہونابھی خدائے متعال Ú©Û’ توسط سے ہے ،خواہ معمولی راستوں سے یاغیر معمولی راستوں سے Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next