خدا کی معرفت اور اس کا حکیمانہ نظام



(اے پروردگار ! میں بھکاری ،جو تم سے مانگنا چاہتا ہوں وہ ہزاروں بادشا ہوں سے زیادہ چاہتا ہوں ، ہر کوئی تیرے در سے کوئی حاجت چاہتا ہے، میں آیا ہوںاورخود تجھے چاہتا ہوں)

      انسان جو اپنے مادی وجوداور مادی زندگی Ú©Û’ تمام پہلوؤں Ú©ÛŒ ضرورتوں Ú©Ùˆ پو را کر Ù†Û’ کےلئے جو محدود کششیں رکھتا ہے ،اس Ú©Û’ علاوہ اپنی نا محدود زندگی ،نامحدود مقصد، نامحدودجمال Ùˆ کمال اور نامحدود توانائی Ú©Û’ لئے بھی Ú©Ú†Ú¾ کششیں رکھتا ہے ۔حقیقت میں انسان Ú©ÛŒ وجودی عمارت بے نہایت مقصد Ú©Û’ لئے تعمیر Ú©ÛŒ گئی ہے اور بے نہایت عالم Ú©ÛŒ طرف حر کت کرنے Ú©Û’ لئے انسان Ú©Û’ اندر فطرتیں معین Ú©ÛŒ گئی ہیں اور جو Ú©Ú†Ú¾ دنیا Ú©Û’ بارے میںمحدود ہو تاہے یہ اس کا مقد ماتی پہلو ہے اور اس لئے ہے کہ انسان Ú©ÛŒ حرکت کاانجن ر Ú©Ù†Û’ نہ پائے اور اپنی راہ Ú©Ùˆ خداکی طرف جاری رکھے۔

      یادرکھنا چاہئے جو چیز انسان Ú©Ùˆ انسان بناتی ہے وہ خدا سے انسان کارابطہ ہے ØŒ کیونکہ انسان کا انتہائی کمال خدا سے رابطہ میں منحصر ہے اور یہ رابطہ پہچان اور عمل سے حاصل ہوتا ہے ØŒ اس Ú©Û’ بغیر  انسان دوسرے حیوانات Ú©ÛŒ فہرست  میں ہوتا ہے بلکہ ان سے پست تر:

<اولئک کا لانعام بل ہم اضل>(اعراف/۱۷۹)

”یہ(گمراہ)چو پایوں جیسے ہیںبلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں“

     اس Ú©Û’ درمیان ،انبیاء اور اولیائے الہی کا وجود ان Ú©Û’ علمی آثار،سنت وسیرت اور ان سے ظاہر ہونے والی طاقتیں ان Ú©Û’ خدا سے رابطہ Ú©ÛŒ نشانیاں تھیں ۔البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ عقلی تجزیہ Ú©Û’ مطابق ہر شئے کا وجود ØŒ خالق سے عین رابطہ ہے اور ممکن نہیں ہے Ú©ÛŒ خالق اپنی مخلوق سے رابطہ نہ رکھے ØŒ لیکن یہ رابطہ تکوینی ہے کہ جونظام ہستی Ú©Û’ مجموعہ میں واقع ہوا ہے اور ناقابل گریز ہے اور کوئی بھی مخلوق ممکن نہیں ہے خدا سے تکوینی رابطہ نہ رکھے ۔بالاخر اس تکوینی رابطہ Ú©Û’ علاوہ انسان ایک اور خصوصیت رکھتا ہے اور خدائے متعال Ù†Û’ یہ قدرت اسے عنایت Ú©ÛŒ ہے کہ وہ اپنی عقل،فہم وشعورکی برکت سے اس رابطہ کودرک کرسکتا ہے اور اسکی قدر وقیمت اس میں ہے کہ وہ اس رابطہ Ú©Ùˆ بہتر اورزیادہ عمیق صورت میںدرک کرے Û”

         عام طور پر شناخت کا آغاز اور خدا سے رابطہ علم حصولی Ú©Û’ ذریعہ ہو تا ہے جو فکر اور عقلی وفلسفی استدلال Ú©Ùˆ بروئے کار لاکر حاصل  ہوتا ہے۔لیکن یہ معرفت Ùˆ شناخت آخری اور نقطہٴکمال Ú©ÛŒ انتہا  نہیں ہے اور اسے مقصد Ùˆ منزل تک نہیں پہنچاتی ہے اور اس میں راسخ اعتقاد Ùˆ یقین ایجاد نہیں کرتی ہے۔مکمل شناخت ،شناخت حضوری ہے۔یعنی انسان ایک ایسے مقام پر پہونچ جاتاہے جہاں سے پورے وجود سے خدا سے رابطہ Ú©Ùˆ درک کرتاہے ،بلکہ وہ خداسے خود عین رابطہ ہوتا ہے ،نہ یہ کہ صرف جان Ù„Û’Û” دین کا مقصد یہ ہے کہ انسان Ú©Ùˆ ایسے مقام تک پہنچا دے ۔امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ Ù†Û’ فرمایا :

”ماراٴیت شیئاً الا و راٴیت اللّٰہ قبلہ وبعدہ ومعہ“

”میں نے کسی چیز کو نہیںدیکھا ،مگر یہ کہ اس سے پہلے اس کے بعد اور اس کے ساتھ خدائے متعال کو دیکھا“

      اگر انسان Ú©Ùˆ-----جو کمال تک کوشش کرتا ہے-----اس دنیا میں یہ معرفت مکمل طورپر حاصل نہ ہوئی،تو اسے ایسے مواقع فراہم کر نا چاہئے تاکہ دوسری دنیا میں اس رابطہ Ú©Ùˆ مکمل طور پر حاصل کرسکے Û” اس جہت سے دین Ú©ÛŒ زبان میں اور احادیث  اہل بیت علیہم السلام میں، خداسے رابطہ Ú©Û’ سلسلہ میں”رویت“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔اور کہاگیا ہے کہ بہشتیوں Ú©ÛŒ بالا ترین نعمت یہ ہے کہ اپنے کمال Ú©Û’ درجہ Ú©Û’ مطابق انوار الہی Ú©Û’ مشا ہدہ سے فیضاب ہو تے ہیں ۔جو بلند ترین مقامات تک پہنچے ہیں ان Ú©Û’ لئے ہمیشہ انوار الہی کا مشاہدہ میسر ہوتا ہے اور جن کامقام پست ہے ،ان Ú©Û’ لئے کمتر تجلیات الہی حاصل ہوتی ہیں Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next