اسلام اور سائنس



اس میں علم کلا م و علم منا طرہ بھی ھے اور علم خطا بت و تلفظ بھی ۔

اس میں علم جفر بھی ھے اور علم رمل بھی ۔

حضرت با قر (ع) ایک مو قع ھر فرما یا ” علوم پا نچ سو ھیں“

غرض کا ئنا ت کا ھر علم اس کے دامن میں سمویا ھو ا ھے ۔ کیو نکہ یہ کتا ب اس ذات کا کلا م ھے کہ جو اس تما م کا ئنا ت کی خا لق و ما لک ھے ۔اس نے اس کتاب کو معجزا نہ صفا ت سے آ را ستہ کر کے بھیجتے ھو ئے خود اعلا ن کیا کہ ” کوئی خشک و تر ایسا نھیں کہ جس کا ( ذکر ) اس کتا ب میں نہ ھو ۔

اور خدا نے علوم کا ئنا ت کو اپنی اس کتا ب میں سمو دیا ھے اور اس کتا ب کے تما م علوم واسرار اور حقا ئق معا رف کا مکمل علم خدا نے اپنے حبیب پیغمبر اکرم کو عطا کی ھے اور پیغمبر اکرم کی صرف الفا ظ و کلما ت پھونچانے کی ذمہ داری ھی نھیں تھی بلکہ اصلا ً اس کے تما م علوم واسرار اور حقا ئق واحکا م پھونچانے کی اھم ذمہ داری بھی تھی لھذا جب پیغمبر اس کتاب کے الفا ظ و کلما ت کو چھو ڑ گئے تو اسی طرح اس کے تمام علوم و اسرار بھی مکمل چھو ڑ گئے ھیں یعنی قرآن حکیم کے تما م علوم واسرار اور احکام و حقا ئق ایسے ذھن کی طرف منتقل کر کے گئے کہ جو ذھن رسالت کے ذھن سے مطا بقت رکھتا ھے اسی لئے پیغمبر نے فرما یا ” میں علم کا شھر ھو ں اور علی (ع) اس کا دروا زہ ھیں جو علم چاھتا ھے اسے چا ھیئے کہ دروا زے کے پا س آ ئے “ پھر اس لیئے حضرت علی (ع) نے بھر ے مجمع میں کئی با ر اعلا ن کیا کہ جو چا ھو مجھ سے پو چھو کہ میں زمین کی با تو ں کےساتھ آ سما ن کی با تیں زیا دہ جا نتا ھو ں“ اسی طرح پھر حضرت علی (ع) نے ان تما م علوم واسرار کو اسی ذھن کی طرف منتقل کیا کہ جو ذھن رسالت کے ذھن سے مطا بقت رکھتا ھے یعنی امام حسن (ع) کی طرف قرآن کے علم واسرار کو منتقل کیا اور امام حسن (ع) نے امام حسین (ع) کی طرف انھو ں نے امام زین العا بدین (ع) کی طرف اور انھو ںنے امام محمد با قر (ع) کی طرف انھو ں نے امام جعفر صا دق (ع) کی طرف اور انھو ں نے امام مو سیٰ کا ظم (ع) کی طرف اور انھو ں نے امام علی رضا (ع) کی طرف اور انھو ںنے امام محمد تقی (ع) کی طرف اور انھو ںنے امام علی نقی (ع) کی طرف اور انھو ں نے امام حسن عسکری (ع) کی طرف اور انھو ں نے تما م علوم واسرار اورغیو با ت امام مھدی (ع) کی طرف منتقل کئے اور ھم نے قرآن اور پیغمبر ساتھ انھی ذوات مقد سہ کے علم سے استفا دہ کیا ھے ۔

چنانچہ تخلیق کا ئنا ت یعنی کا ئنا ت کے آ غا ز کو قرآن حکیم ان الفاظ میں واضح کر تا ھے ۔

ثم استوی الی السما ء وھی دخان ۔۔ الخ ۔ حم سجدہ ۔

” پھر وہ آ سما ن کی طرف متو جہ ھو اور وہ ( آ سما ن ) دھواں ساتھا ۔۔ الخ“

سا یہ رو شنی : الم تر الی ربک کیف مدا لظل ولو شا ء لجعلہ سا کنا ً ثم جعلنا الشمس علیہ دلیلاً ثم قبضنا ہ الینا قبضا ً یسیراً (۴۵۔ فر قا ن)

” کی ا تم نے اپنے رب کی قدرت کی طرف نھیں دیکھا کہ اس نے کیو ں کر سائے کو پھیلا یا ۔ اگر وہ چا ھتا تو اسے ( ایک جگہ ) ٹھھر ا ھو ا کر دیتا ۔ پھر ھم نے سورج کو ( اس کی پھنچا ن کے لئے ) اس کا ر ھنما بنا دیا ۔ پھر ھم نے اسے تھو ڑا کر کے اپنی طرف کھینچ لیا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 next