او لواالعزم انبياء (ع)



اکثر مفسروں کے عقیدے کے مطابق مندرجہ بالا آیت سے ایک مسلمان زانی یا زانیہ کا کسی مشرک کے ساتھ شادی کرنا جائز ھے لیکن یہ حکم بعد میں منسوخ ھوگیا۔اور موجودہ حکم شرعی کے تحت اس طرح کی شادی صحیح نھیں ھے ۔یھاں یہ بات بھی بیان کردینا ضروری ھے کہ عصر حاضر کے بعض بزرگوں نے اس آیت کی ایک دوسرے طریقہ سے تفسیر کرتے ھوئے کھا ھے کہ اس آیت میں حکم شرعی بیان نھیں ھوا ھے ۔لیکن حق یھی ھے کہ یہ آیت حکم شرعی کے بیان میں ظھور رکھتی ھے یعنی بظاھر اس میں شرعی حکم بیان ھوا ھے ۔

بھر حال اس میں کوئی شک نھیں کہ اسلام کے بعض ابتدائی احکام منسوخ بھی ھوئے ھیں ۔اس بناء پر خود ایک شریعت کے اندر نسخ واقع ھونا ایک ممکن امر ھے اور اس شریعت کی وحدت کو کوئی ضرر نھیں پھنچتا ۔اگر کسی شریعت میں کوئی حکم خدا ایک مدت تک ثابت رھے اور اسکے بعد منسوخ ھوجائے تو اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ وہ شریعت ھی بدل گئی ھے ۔اس بناء پر جس طرح ایک دین کے اندر کسی حکم منسوخ ھونا کسی شریعت یا دین ھونے کا باعث نھیں ھوتا اسی طرح کسی پیغمبر کے ذریعہ ایک الٰھی دین کے گذشتہ احکام کا منسوخ کیا جانا ان دونوں شریعتوں میں کسی بنیادی اختلاف کی دلیل نھیں کھاجائے گا۔مثال کے طور پر یہ حقیقت کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے بعض احکام منسوخ ھوگئے بالکل اسی طرح ھے کہ جیسے مذکورہ احکام خود حضرت موسیٰ (ع)کے دور حیات میں منسوخ ھوگئے ھوں ۔اور ان دونوں مفروضوں کے درمیان کوئی بنیادی فرق نھیں ھے مختصر یہ کہ دو شریعتوں میںاختلاف کی یہ دوسری قسم بھی (پھلی قسم کی طرح )بنیادی طورپر کئی ادیان ھونے کا باعث نھیں ھے ۔اب اختلاف کی تیسری قسم کے بارے میں کیا کھا جائے گا؟کیا اختلاف کی یہ قسم بھی کسی دین کے اندر واقع ھوئی ھے ؟اسکے جواب میں یہ کھا جاسکتا ھے کہ بہ ظاھر اس طرح کا اختلاف ایک دین کے اندر ممکن ھے ۔اور اس میں کوئی عقلی قباحت نھیں ھے ۔یعنی ممکن ھے ایک شریعت کے بعض احکام کسی مخصوص گروہ سے تعلق رکھتے ھوں اور بقیہ تمام احکام عام ھوں۔

بیان شدہ مطالب سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ مختلف ادیان الٰھی کے درمیان موجود اختلافات کو ایک ھی دین میں اسکے مشابہ اختلافات کے وقوع یا امکان وقوع کی بنیاد پر ان کی ذات میں جدائی کا باعث نھیں قرار دیا جاسکتا ۔اس اساس و بنیاد پر کھا جاسکتا ھے کہ حقیقی دین ایک ھی ھے اوروہ اسلام کے علاوہ کچھ نھیں ھے ۔لیکن زمانے کے تقاضوں کے اعتبار سے ان کے احکام کے دائرے اور ان پر عمل کرنے والوں کے لحاظ سے تبدیلی ھوئی ھے ۔اس بناء پر تمام ادیان الٰھی کی اساس و بنیاد ایک ھے اگر چہ زیر بحث اختلافات کی موجود گی کے تحت ایک طرح سے ادیان الٰھی کا کئی یاالگ الگ دین ھونا نظر میں رکھا جاسکتا ھے ۔اس سے زیادہ واضح الفاظ میں یوں کھا جاسکتا ھے کہ حقیقت دین ایک ھی ھے اور یہ حقیقت واحدہ وھی اسلام (اپنے معنائے عام میں )ھے:<اِنَّ الدِیْنَ عِنْدَاللهِ الْاِسْلٰامُ>لیکن تاریخ کے طویل دور میں زمانہ کے تقاضوں کے لحاظ سے مختلف شریعتیں انسانوں کے درمیان نازل ھوئی ھیں۔اس بناء پر دین الٰھی کا ایک ھونا شریعتوں کے کئی ھونے کے ساتھ بالکل سازگار ھے ۔

عا لمی رسالت کا مفھو م

اولو االعزم پیغمبروں Ú©ÛŒ رسالت Ú©Û’ عالمی Ú¾Ùˆ Ù†Û’ Ú©Û’ مسئلہ کا جوا ب عرض کر Ù†Û’ سے Ù¾Ú¾Ù„Û’  ایک اور با ت مقدمہ Ú©Û’ طور پر  بیا Ù† کر دینا ضرو ری سمجھتا Ú¾Ùˆ Úº  وہ یہ کہ رسالت Ú©Û’ جھا Ù†ÛŒ Ú¾Ùˆ Ù†Û’ سے مراد کیا Ú¾Û’ ؟اگر کسی بھی صو رت سے تما Ù… قو مو Úº سے رابطہ اور ملتو Úº سے رابطہ بر قرار کر Ú©Û’ ان تک خدا کا پیغام Ù¾Ú¾Ùˆ نچانا ایک رسو Ù„ Ú©Û’ فر ائض میں شا مل Ú¾Ùˆ تو اس Ú©Ùˆ عالمی رسالت کا حا مل رسو Ù„ کھا جاتا Ú¾Û’ Û” اس Ú©Û’ با لمقابل ایک پیغمبر Ú©ÛŒ رسا لت اس وقت تک عالمی نھیں Ú¾Ùˆ Ú¯ÛŒ کہ جب تک پوری دنیا تک اپنی دعوت Ù¾Ú¾Ùˆ نچانا ا س Ú©Û’ فر ائض میں شا مل نہ Ú¾Ùˆ بلکہ وہ ایک خا ص قوم Ú©Û’ لئے مبعوث کیا گیا Ú¾Ùˆ ØŒ یقینا ایک پیغمبر Ú©Û’ تمام لو Ú¯Ùˆ Úº Ú©Û’ لئے مبعوث نہ کئے جا Ù†Û’ Ú©ÛŒ مختلف وجھیں Ú¾Ùˆ سکتی ھیں :

ایک دفعہ ممکن Ú¾Û’ تمام قو مو Úº سے رابطہ بر قرار کر Ù†Û’ Ú©Û’ مروجہ وسا ئل اس Ú©Û’ پا س نہ Ú¾Ùˆ Úº ،یا پیغمبر Ú©Û’ اختیار میں اصو Ù„ÛŒ طور پر اس طرح کا فریضہ انجام دینے Ú©Û’ لئے مو قع نہ Ú¾Ùˆ Û” سب جا نتے ھیں کہ گز شتہ زما نوں میں دور دراز علا قو Úº سے رابطہ بر قرار کر نا آسان کام نھیں تھا اور بعض دور دراز  ملکو Úº کا سفر کر نا عام طور پر ایک غیر ممکن امر شمار کیا جا تا تھا ۔ظا ھر Ú¾Û’ ایسے حا لات میں جبکہ سفر Ú©Û’ وسائل بالکل ابتدا ئی تھے اور ایک شخص Ú©Û’ لئے پو ری دنیا سے رابطہ بر قرار کر Ù†Û’ کا امکان نھیں تھا Û”

ممکن Ú¾Û’ Ú©Ùˆ ئی Ú©Ú¾Û’ اگر چہ گز شتہ زما نوں اور دور دراز علا قو Úº سے عام طور پر رائج طریقو Úº سے رابطہ بر قرار کر نا ممکن نہ رھا Ú¾Ùˆ Û” لیکن الٰھی انبیاء علیھم السلام Ú©Û’ لئے کسی غیر معمو Ù„ÛŒ طریقے ØŒ مثلاً معجزہ وغیرہ سے کام لیکر اس کام کا انجام دینا مسلم طور پر ممکن تھا Û” ا س Ú©Û’ جوا ب میں اس بات پر توجہ دینی   چا ہئے کہ تا ریخی شو ا ھد Ú©ÛŒ روشنی میں انبیاء(ع) Ú©ÛŒ روش یہ رھی Ú¾Û’ کہ اس طرح Ú©Û’ مو قعو Úº پر وہ غیر معمولی طریقے یعنی معجزے وغیرہ سے کام نھیں لیتے تھے۔ خدا Ú©Û’ پیغمبر مخصوص مقا مات پر Ú¾ÛŒ معزہ دکھا Ù†Û’ کا اقدام کیا کر تے تھے اور یہ مقا مات بھی صرف ان Ú©ÛŒ رسالت اور دعوتِ تبلیغ میں آسانی Ú©Û’ لئے  وہ اعجاز کا سھا را نھیںلیتے تھے Û”

بھر حال یہ بات مسلّم ھے کہ تمام قو موں اور ملّتوں کے ساتھ رائج طریقہ سے رابطہ بر قرار کر نا تمام پیغمبروں کے لئے ممکن نھیں تھا ۔ اور بظا ھر دنیوی وسائل سے ما فوق غیر معمو لی طریقوں سے استفا دہ کر نے پر وہ ما مور بھی نھیں تھے ۔ مذ کو رہ مفھو م کی بنیاد پر یہ ادّعا کیا جا سکتا ھے کہ صرف پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی رسالت پو ری دنیا کے لئے عا لمی رسالت تھی اور آپ(ع) اپنی دعوتِ تبلیغ میں غیر عرب اقوام تک الٰھی پیغام پھو نچا نے کے لئے ما مور کئے گئے تھے ۔ لیکن بقیہ تمام انبیاء(ع) کی رسالت بظاھرعا لمی رسالت نھیں تھی ۔

یھا ں ، چند با توں پر تو جہ دینا ضر وری ھے :

Ù¾Ú¾Ù„ÛŒ بات یہ کہ جن قو مو Úº میں تبلیغ Ú©Û’ لئے پیغمبر بھیجے گئے تھے  ان سے مراد قو مو Úº Ú©ÛŒ ایک ایک فرد نھیں بلکہ جو Ú©Ú†Ú¾ ان سے توقع تھی نیز جو چیز پیغمبر Ú©Û’ فرا ئض میں شا مل تھی اپنا پیغام قو مو Úº Ú©Û’ سردار تک Ù¾Ú¾Ùˆ نچا دینا رھا Ú¾Û’ Û”

دوم یہ کہ تبلیغ رسالت Ú©ÛŒ ذمہ داری  چا Ú¾Û’ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  Ú©Û’ دور حیات میں پو ری Ú¾Ùˆ یا اُن Ú©ÛŒ وفا ت Ú©Û’ بعد آپ (ع)  Ú©ÛŒ وفا ت Ú©Û’ بعد آپ(ع) Ú©Û’ او صیاء یعنی ائمہ معصوم Ú©Û’ ذریعہ  پو ری Ú¾Ùˆ دو نوں Ú©Ùˆ شا مل Ú¾Û’ Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 next