حجة الوداع کی تفصیل



موت آپ سے قریب ھو تی جا رھی تھی ،آپ کو واضح طور پر یہ معلوم تھا کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اصحاب کا ایک گروہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اھل بیت(ع) سے خلافت چھیننے کے سلسلہ میں جد و جھد کر رھا ھے، آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ان سے شھر مدینہ کو خالی کرانے میں بہتری سمجھی ،ان کو غزوئہ روم کےلئے بھیجنا چا ھا ،لشکر تیار کیا گیا ،جس کی ذمہ داری نوجوان اسامہ بن زید کو سونپی گئی ،بڑے اصحاب اس میں شامل ھونے سے کترانے لگے ،انھوں نے اپنے مشورہ کے تحت لشکر تیار کیاکیونکہ ان کا اُس لشکر سے ملحق ھونا دشوار تھا ،اس وقت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) منبر پر تشریف لے گئے اور ان سے یوں خطاب فرمایا :”نَفِّذُ وْا جَیْشَ اُسَامَةَ ۔۔“،”لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْ جَیْشِ اُسَامَةَ ۔۔“۔ ”اسامہ کے لشکر سے جا کر ملحق ھو جاو “، ” جس نے اسامہ کے لشکر سے تخلف کیا اس پر خدا کی لعنت ھے “۔

نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی اس طرح سخت انداز میں کی گئی ان نصیحتوں کا اُن پر کوئی اثر نھیں ھوا ،اور انھوں نے نبی کے فرمان پر کان نھیں دھرے ، اس سلسلہ میں اھم بحثوں کو ھم نے اپنی کتاب ”حیاةالامام الحسن “ میں بیان کر دیا ھے ۔

جمعرات ،مصیبت کا دن

نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے وصی اور باب مدینة العلم کے لئے غدیر کے دن کی بیعت اور شوریٰ کے دروازوں کو بند کرنے کے لئے یہ بہتر سمجھا اورآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا :”اِئتُوْنِیْ بِالْکَتِفِ وَالدَّوَاةِ لَاَکْتُبَ لَکُمْ کِتَاباً لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہُ اَبَداً ۔۔۔“۔

”مجھے کاغذ اور قلم لا کر دو تاکہ میں تمھارے لئے ایسا نوشتہ تحریر کردوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ھو ‘ ‘۔

مسلمانوں Ú©Û’ لئے یہ بہت بڑی نعمت تھی ،سرور کا ئنات اس طرح اپنی امت Ú©Ùˆ گمراھی سے بچنے  Ú©ÛŒ ضمانت دے رھے تھے تاکہ امت ایک Ú¾ÛŒ راستہ پر Ú†Ù„Û’ جس میں کسی طرح کا Ú©Ùˆ ئی بھی موڑ نہ ھو، امت اسلامیہ Ú©ÛŒ ھدایت اور اصلاح Ú©Û’ لئے اس نوشتہ سے بہتر Ú©Ùˆ نسا نوشتہ Ú¾Ùˆ سکتا Ú¾Û’ ؟یہ نوشتہ علی(ع) Ú©Û’ بارے میں آپ Ú©ÛŒ وصیت اور اپنے بعد امت Ú©Û’ لئے ان Ú©Û’ امام ھونے Ú©Û’ سلسلہ میں تھا Û”

بعض اصحاب ،نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے مقصد سے با خبر تھے کہ نبی اس نوشتہ کے ذریعہ اپنے بعد علی(ع) کو اپنا خلیفہ بنا نا چا ہتے ھیں ،لہٰذا اس بات کی یہ کہکر تردید کر دی:”حسبناکتاب اللّٰہ ۔۔۔”ھمارے لئے کتاب خدا کافی ھے ۔۔۔“

اس قول کے سلسلہ میں غور و فکر کرنے والے اس کے کھنے والے کی انتھا تک پھنچ جا ئیں گے کیونکہ اس کو مکمل یقین ھو گیا کہ نبی اس نوشتہ کے ذریعہ اپنے بعد علی(ع) کو خلیفہ بنانا چا ہتے ھیں اور اگر اس کو یہ احتمال بھی ھوتا کہ نبی سرحدوں یا کسی دینی شعائرکی حفاظت کے بارے میںوصیت کر نا چا ہتے ھیں تو اس میں یہ کھنے کی ھمت نہ ھو تی ۔

بھر حال حاضرین میں بحث و جدال ھونے لگا ایک گروہ کہہ رھا تھا کہ نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حکم کی تعمیل کی جا ئے اور دوسرا گروہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)او رنوشتہ کے درمیان حائل ھوناچاہتا تھا ،کچھ امھات مو منین اور بعض عو رتیں نبی کے آخری وقت میں آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حکم کے سامنے اس طرح کی جرات سے منع کر تے ھوئے کہہ رھی تھیں : کیا تم رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان نھیں سن رھے ھو ؟ کیا تم رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حکم کو عملی جامہ نھیں پھناؤگے ؟

اس جنگ و جدل کے بانی عمر نے عورتوں پر چیختے ھوئے کھا :اِنَّکُنَّ صویحبات یوسف اذامرض عصرتن اعینکنَّ،واذاصحّ رکبتن عنقہ ۔”تم یوسف کی سھیلیاں ھوجب وہ بیمار ھوجاتے ھیں تو تم رونے لگتی ھو اور جب وہ صحت مند ھوجاتے ھیں تو ان کی گردن پر سوار ھو جا تی ھو “



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next