شیعوں کی ابتدا کهاں سے اور کیسے؟



ھیثمی نقل کرتا Ú¾Û’: بریدہ اسلمی ان لو گوںمیں سے Ú¾Û’ کہ جو حضرت علی(علیہ السلام) Ú©ÛŒ سپہ سالاری میں یمن گئے تھے وہ کھتا Ú¾Û’ کہ میں لشکر سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ مدینہ واپس آگیا لوگوں Ù†Û’ مجھ سے پوچھا کہ کیا خبر Ú¾Û’ØŸ میں Ù†Û’ کھا: خبریہ Ú¾Û’ کہ خدا Ù†Û’ مسلمانوں Ú©Ùˆ کامیاب کردیاھے پھر لوگوں Ù†Û’ دریافت کیا کہ تو تم کیوں  Ù¾Ú¾Ù„Û’ واپس آگئے؟ میں Ù†Û’ کھا: علی(علیہ السلام) Ù†Û’ ایک کنیز خمس میں سے اپنے لئے مخصوص کرلی Ú¾Û’ میں ٓیاھوں تاکہ اس بات Ú©ÛŒ خبر پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Ú©Ùˆ دوں، جس وقت یہ خبر پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک Ù¾Ú¾Ù†Ú†ÛŒ تو پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناراض ھوئے اور آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Ù†Û’ فرمایا: آخرکیوں  Ú©Ú†Ú¾ لوگ علی(علیہ السلام) Ú©Û’ بارے میں چوںچرا کرتے ھیں جس Ù†Û’ علی(علیہ السلام) پر اعتراض کیا اس Ù†Û’ مجھ پر اعتراض کیا Ú¾Û’ جو علی(علیہ السلام) سے جدا ھوا وہ مجھ سے جدا Ú¾Ùˆ ا، علی(علیہ السلام) مجھ سے ھیں اور میں علی(علیہ السلام) سے ھوں،وہ میری سرشت سے خلق ھوئے ھیں اور میں سرشت ابراھیم سے، اگرچہ میں براھیم سے افضل ھوں،اے بریدہ  کیا تم نھیں جانتے کہ علی(علیہ السلام) ایک کنیزسے زیادہ Ú©Û’ مستحق ھیں اور وہ میرے بعد تمھارے ولی ھیں۔[78]

ابن شھر آشوب نے بھی اس طرح کی حدیث محدثان اھل سنت سے نقل کی ھے جیسے تر مذی، ابو نعیم، بخاری و موصلی وغیرہ۔[79]

ابن شھر آشوب انس بن مالک سے نقل کرتے ھیں :

رسول اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اگر کسی کو پھچاننا چاھتے تھے کہ کون حرام زادہ ھے اور کون حرام زادہ نھیں ھے تو اس کو علی(علیہ السلام) بن ابی طالب(علیہ السلام) کے بغض سے پھچانتے تھے، جنگ خیبر کے بعد لوگ اپنے بچوں کو اپنی آغوش میں لئے ھوئے جاتے تھے جب راستہ میں علی(علیہ السلام) کو دیکھتے تھے اوروہ ھاتھوں سے حضرت علی(علیہ السلام) کی طرف اشارہ کرتے تھے اور بچہ سے پوچھتے تھے کہ اس شخص کو دوست رکھتے ھو اگر بچہ نے کھا: ھاں تو اس کا بوسہ لیتے تھے اور اگروہ کھتاتھا نھیں ، تو اس کو زمین پراتاردیتے اور کھتے کہ اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ،عبادہ بن صامت کا بھی کھناھے: ھم اپنی اولادکو بھی علی(علیہ السلام) بن ابی طالب(علیہ السلام) کی محبت پر آزماتے تھے اگر دیکھتے تھے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی حضرت علی(علیہ السلام) کو دوست نھیں رکھتاتو سمجھ لیتے تھے کہ یہ نجات یافتہ نھیں ھو سکتا۔[80]

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر کے آخری سال گزرنے کے ساتھ ساتھ مولا علی(علیہ السلام) کی جانشینی کا مسئلہ عمومی تر ھوتا گیا اور اس قدر عام ھو ا کہ لقب وصی حضرت علی(علیہ السلام) سے مخصو ص ھو گیا جس کو دوست و دشمن سبھی قبول کرتے تھے خاص کر رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک جانے سے پھلے حضرت علی(علیہ السلام) سے فرمایا: اے علی(علیہ السلام) تم میرے لئے ایسے ھی ھو جیسے ھارون موسیٰ کے لئے تھے لیکن فرق یہ ھے کہ میرے بعد کوئی نبی نھیں آئے گا اور حجةالوداع کے موقع پر بھی پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منیٰ و عرفات کے میدان میں اپنی تقریر وں کے ذریعہ لوگو ں کے کانوں تک یہ بات پھنچا دی تھی کہ میرے بارہ جانشین ھوں گے جو سب کے سب بنی ھاشم سے ھوں گے۔[81]

بالآخر مکہ سے واپسی پرغدیر خم کے میدان میں خدا کا حکم آیاکہ تمام مسلمانوں کے درمیان علی(علیہ السلام) کی جانشینی کا اعلان کردیں، رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے، مسلمانوں کو ٹھھرنے کا حکم دیا اور اونٹ کے کجاوٴںکے منبر پر تشریف لے گئے اورمفصل تقریر کے بعد فرمایا: من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ>

اس کے بعد لوگوں کو حکم دیا کہ علی(علیہ السلام) کی بیعت کریں اس مطلب کی تفصیل علامہ امینی نے الغدیر کی پھلی جلد میں بیان کی ھے، رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں میں اعلان کر دیا کہ کون میرا جانشین ھے اسی بنا پر لوگوں کو یقین تھا کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی وفات کے بعد علی(علیہ السلام) ان کے جانشین ھوں گے، زبیر بن بکار اس سلسلے میں لکھتا ھے:

 ØªÙ…ام مھاجرین اور انصار Ú©Ùˆ اس بارے میں بالکل Ø´Ú© نھیں تھا کہ رسول خد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ا Ú©ÛŒ وفات Ú©Û’ بعد حضرت علی(علیہ السلام) خلیفہ اور صاحب الامر Ú¾ÙˆÚºÚ¯Û’Û”[82]

یہ مطلب زمانہٴ سقیفہ کے اشعار سے بخوبی آشکار ھے اور یہ اشعار اس مطلب پر دلیل ھیں جب کہ ان اشعار میں مختصر سی تحریف ھوئی ھے عتبہ بن ابی لھب نے سقیفہ کے واقعہ کے بعداور ابوبکر کے خلیفہ بن جانے کے بعد اس طرح اشعار پڑھے ھیں ۔

ما کنت احسب ان الاٴمر منصرف



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 next