شیعوں کی ابتدا کهاں سے اور کیسے؟



”میں تمھیں اس چیز کی طرف راھنمائی کررھا ھوں کہ اگر جان لو گے تو ھلاک نھیں ھوگے، تمھارے امام علی بن ابی طالب( علیھما السلام)ھیں ، ان کی تصدیق کر وکہ جناب جبرئیل نے مجھے اس طرح خبر دی ھے “۔

ابن ابی الحدید معتزلی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کھتے ھیں اگرلوگ کھیں کہ یہ حدیث صریحی طور پر حضرت علی(علیہ السلام) کی امامت پر دلالت کرتی ھے توپھر معتزلہ کس طرح اس اشکال کو حل کریں گے ؟

ھم جواب میں کھتے ھیں: ھوسکتاھے کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد یہ ھو کہ حضرت علی(علیہ السلام) فتویٰ دینے اور احکام شرعی میں لوگوں کے امام ھیں، نہ کہ خلافت کے سلسلہ میں، جس طرح ھم نے بغدادی علمائے معتزلہ کے اقوال کی شرح میں جو بات کھی ھے وہ(اس اشکال کا) جواب ھوسکتی ھے، جس کا خلاصہ یہ ھے:

در حقیقت امامت و خلافت حضرت علی(علیہ السلام) کا حق تھا، اس شرط کے ساتھ کہ آنجناب اس کی طرف میل و رغبت کا اظھار کرتے اور اس کی خاطر دوسروں کے مد مقابل آجاتے لیکن چونکہ آپ نے اس عھدہ امامت و خلافت کو دوسروں پر چھوڑکر سکوت اختیار کیا،لہذا ھم نے ان کی ولایت و سر براھی کو قبول کرتے ھوئے ان کی خلافت کے صحیح ھونے کا اقرار واعتراف کرلیا، چنانچہ حضرت علی(علیہ السلام) نے خلفائے ثلاثہ کی مخالفت نھیں کی اور ان کے مقابلہ میں تلوار نھیں اٹھائی اور نہ ھی لوگوں کو ان کے خلاف بھڑ کایا، پس آپ کا یہ عمل اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ آپ نے ان کی خلافت کی تصدیق کی، اسی وجہ سے ھم ان کو قبول کرتے ھیں اور ان کے بے قصور ھونے اور ان کے حق میں خیر وصلاح کے قائل ھیں، ورنہ اگر حضرت علی(علیہ السلام) ا ن حضرات سے جنگ کرتے اور ان کے خلاف تلوار اٹھا لیتے اور ان سے جنگ کرنے کے لئے لوگوں کو دعوت دیتے تو ھم بھی ان کے فاسق و فاجر اور گمراہ ھونے کا اقرار و اعتراف کرلیتے“ [62]

 Ø´ÛŒØ¹ÙˆÚº Ú©Û’ دوسرے نام:              

حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے بعد جب تشیع وسیع تر ھوئی تو شیعہ نام کے علاوہ آھستہ آھستہ اور دوسرے عناوین جیسے علوی، امامی، حسینی، اثنا عشری، خاصہ، جعفری ترابی، رافضی، خاندان رسالت کے دوستوں کے لئے استعمال ھونے لگے اگر چہ عام طور پر اھل بیت(علیہ السلام) کے دوستوں کو شیعہ ھی کھتے تھے، یہ القاب اور عناوین مختلف مناسبتوں سے شیعوں کے متعلق کھے گئے کبھی مخالفین یہ القاب شیعوں کی سرزنش اور ان کو تحقیر کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے، چنانچہ معاویہ کے زمانے میں بنی امیہ اور اھل شام علی(علیہ السلام) کے القاب اور کنیت میں سے آپ کو ابو تراب اور آپ کے شیعوں کو ترابی کھتے تھے، معاویہ نے صفین اورحکمیت کے بعد جب عبداللہ بن خزرمی کو بصرہ بھیجنا چاھاتو تمام قبیلوں کے بارے میں اس نے بھت تاکید کی لیکن قبیلہ ربیعہ کے بارے میں کھا کہ: ربیعہ کو چھوڑواس لئے کہ اس کے تمام افراد ترابی ھیں۔[63]

مسعودی کے بقول ابو مخنف کے پاس ایک کتاب تھی جسکا نام” اخبار الترابیین“ تھا، مسعودی اس کتاب سے نقل کرتا ھے کہ جس میں (عین الورد کے حوادث)کا تذکرہ کیا گیا ھے۔[64]

رافضی عنوان کو مخالفین،شیعوں پر اطلاق کرتے تھے اور اکثر جب کسی کو چاھتے تھے کہ اس پر دین کو چھوڑنے کی تھمت لگائیں تو اس کورافضی کھتے تھے۔

چنانچہ شافعی کھتے ھیں :

ان کان رفضاً حب آل محمدٍ



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 next