حضرت محمد مصطفی (ص) خاتم الانبیاء کی نبوت



”میں نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے کلام کو سنا، جو نہ کسی انسان کاکلام ھے اور نہ ھی کسی جن کا، یہ وہ کلام ھے جس میں حلاوت اور خوبصورتی ھے اس کے اوپر کا( حصہ )ثمر دینے والے درخت کی مانند اور نیچے کاحصہ گورا ھے، یہ قرآن کی ترقی کی حالت میں ھے اور ھمیشہ سربلند رھے گا۔ [17]

اسی طرح ہشام بن حکم راوی ھیں کہ ایک سال خانہ کعبہ میں اپنے زمانہ کے چار بڑے بڑے مفکر اور ادیب جمع هوئے جن کے نام اسی طرح ھیں:

۱۔ ابن ابی العوجاء۔

۲۔ ابو شاکر دیصانی۔

۳۔عبد الملک البصری۔

۴۔ ابن مقفع۔

اور یہ چاروں خدا کا انکارکرنے والے دھریے تھے ، جو آپس میں نبی اسلام اور حج کے بارے میں گفتگو کررھے تھے، چنانچہ گفتگو کے دوران طے یہ پایا کہ اس قرآن کا مقابلہ کیا جائے جو اس دین کی بنیاد ھے تاکہ اس کے مقابلہ اور تعارض سے قرآن کے اعجاز کو ختم کردیا جائے چنانچہ آپس میں یہ طے کیا کہ ان میں سے ھر شخص ایک چھارم (on quarter)قرآن کا جواب لائے، چنانچہ اس پروگرام کے تحت آئندہ سال کا موسمِ حج طے کیا گیا۔

اور جب سال گذرنے کے بعد یہ لوگ تاریخ معینہ پر خانہ کعبہ میں جائے معین پر جمع هوئے اور ایک دوسرے سے محوِ گفتگو هوئے کہ تم نے کیا کیا او رتم نے کیاکام انجام دیا، چنانچہ ابن ابی العوجاء کہتا ھے کہ میرا پورا سال پریشانی واضطراب کی حالت میں گذر گیا اور قرآن مجید کی اس آیت کے بارے میں سوچتا رھا:

<فَلَمَّا اسْتَیْئَاٴسُوْا مِنْہُ خَلَصُوْا نَجِیاً>[18]

”پھر جب یوسف کی طرف سے مایوس هوگئے تو باھم مشورہ کرنے کے لئے کھڑے هوئے“

اور میں اس جیسی کوئی آیت نھیں بنا سکا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next