آیہٴ اکمال کی وضاحت



<۔۔۔خَلَقَ الْاٴَرْضَ فِی یَوْمَیْنِ۔۔۔>[53]

”جس نے ساری زمین کو دو دن میں پیدا کر دیا ھے۔“

۵۔ قیامت: قرآن کریم میں لفظ ”یوم “کے زیادہ تر استعمالات روز قیامت کے لئے ھیں، قیامت کو ”یوم“ کھنے کا راز یہ ھے کہ یہ نظام کائنات کا ایک دوسرا مرحلہ اور آخری مرحلہ ھے۔

”الیوم“میں الف و لام عہد ذکری ھے، اور ایک مخصوص روز کی طرف اشارہ ھوا ھے جو کھنے والے اور سننے والے دونوں کو معلوم ھے۔ اس بنا پر لفظ ”الیوم“آج کے معنی میں ھے جو گزرے ھوئے کل کے مقابل ھوتا ھے۔

قارئین کرام! حق و انصاف یہ ھے کہ آیہ شریفہ زمانہ کے ایک حصہ کی طرف اشارہ کرتی ھے جس زمانہ کا آغاز آیت کے نازل ھونے کا دن ھے۔ اس وجہ سے نزول آیت کے دن کے بارہ یا چوبیس گھنٹوں سے مخصوص نھیں ھے۔

آیت میں دوسرا ”الیوم“ بھی اسی اھم روز کی اھمیت کے لئے ھے اور اسی معنی میں ھے۔

کفارکا لالچ

آیت Ú©Û’ اس فقرے: <Û”Û”Û” الْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ دِینِکُم>  میں کفار سے حجاز یا مشرکین مکہ مراد نھیں ھیں بلکہ علت، مطلق اور عام Ú¾Û’ جس Ú©ÛŒ وجہ سے تمام مشرکین ØŒ بت پرست اور یھود Ùˆ نصاریٰ۔۔۔ بھی شامل ھیں۔

کفار کی یہ کوشش قرآن مجید کی آیات سے سمجھ میں آتی ھے کہ وہ دین کو نیست و نابود کرنے کے لئے دین میں داخل ھونا چاہتے تھے۔ لیکن خداوندعالم نے کفار کے اہداف و مقاصد کو درج ذیل مواقع پر واضح کردیا:

۱۔ ان کی پھلی کوشش یہ تھی کہ دین کے چراغ کو بالکل خاموش کردیا جائے، اور دین کے اس پودے کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

< یُرِیدُونَ اٴَنْ یُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِاٴَفْوَاہِہِمْ وَیَاٴْبَی اللهُ إِلاَّ اٴَنْ یُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ>[54]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 next