آیہٴ اکمال کی وضاحت



۱۔ ”دین“ سے مراد شریعت کے احکام و قوانین ھیں، یعنی اس دن اسلام کے قوانین مکمل ھوگئے اور اس کے بعد سے اسلام میں قانونی لحاظ سے کوئی مشکل نھیں ھے۔

جواب:

اگر اکمال دین سے مراد شریعت کا کامل ھونا تھا تو پھر رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر کوئی حکم نازل نھیں ھونا چاہئے تھا، جبکہ بہت سی روایات کے مطابق اس کے بعد بھی پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر ”کلالہ“(مادری یا پدری بھائی بھن) کے بارے میں آیت، سود کے حرام ھونے کی آیت، اور دوسرے احکام بھی نازل ھوئے ھیں۔

طبری، براء بن عازب سے نقل کرتے ھیں کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)پر سب سے آخر میں نازل ھونے والی آیت یہ Ú¾Û’:  <۔۔۔یَسْتَفْتُونَکَ قُلْ اللهُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلاَلَةِ۔۔۔>[61]

”پیغمبر یہ لوگ آپ سے فتویٰ دریافت کرتے ھیں تو آپ کہہ دیجئے کہ کلالہ (بھائی بھن)کے بارے میں خدا یہ حکم بیان کرتا ھے۔“

ابو حیان اندلسی کہتے ھیں:

”اس آیت (آیہٴ اکمال) کے نازل ھونے کے بعد پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر بہت سی آیات جیسے آیات ربا، آیات کلالہ اور دیگر آیات نازل ھوئی ھیں۔“

۲۔ بعض لوگوں کا ماننا ھے کہ آیہٴ ”اکمال“ میں دین سے مراد حج ھے یعنی اس خالص اور باشکوہ روز خداوندعالم نے تمھارے حج کو کامل کردیا۔

جواب:

اول: حج، شریعت اسلامیہ کا جز ھے، نہ کہ دین کا، اور دین کو شریعت پر حمل کرنا کہ جس کا ایک جز حج ھے، لفظ کے برخلاف ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 next